Khoonkhar Kuttay Aur Hum
خونخوار کتے اور ہم
ہم میں سے اکثر لوگ کتوں سے خوف زدہ رہتے ہیں اور بہت کم ایسے لوگ ہوں گے جو کتوں سے نہیں ڈرتے ہوں گے۔ ہمارا بچپن سے کتوں کے ساتھ چھتیس کا آنکڑا تھا۔ ہم کتوں کو دیکھ کر اکثر رستہ بدل لیتے تھے لیکن پھر ایک دن ایسا آیا کہ کتوں نے ہمیں دیکھ کر راستہ بدلنا شروع کردیا۔ یہ واقعہ کب کیوں کیسے پیش آیا اس کے لئے آپ کو میرے ساتھ ماضی میں سفر کرنا پڑے گا۔
گرمیوں کی چھٹیوں کے دن تھے اور تمام سکول، کالج اور یونیورسٹیز بند ہونے کی وجہ سے ہمارے تمام محلے کے لڑکے اور بچے گھر کے کاموں سے فارغ ہوکر ڈیرے میں یعنی پیپل کے درخت کے نیچے جمع ہوکر گپ شپ کرتے تھے۔
میں گپ شپ کے دوران تھوڑی دیر کے لئے گھر حاضری لگانے گیا تو ابو جو باقاعدگی سے دادا اور دادی جان کی قبروں پر حاضری دیتے تھے بتا رہے تھے آج کل قبرستان میں ایک کتوں کا غول بیٹھا ہوتا ہے اور آنے جانے والوں کے پیچھے پڑ جاتا ہے اور آج صبح میرے پیچھے بھی پڑ گئے تھے۔ ان کا سربراہ سفید رنگ کا اور بڑے بڑے دانتوں والا کتا ہے۔ اس لئے بچوں کو کہو ادھر جاتے ہوئے احتیاط کیا کریں۔
میں نے ڈیرے پر جاتے ہی یہ خبر سنائی اور منٹوں میں ہمارے ہراول دستے تیار ہوگئے۔ سب لوگوں نے ڈنڈے اٹھائے لیکن میں نے مشورہ دیا کے پتھر بھی اٹھا لو کیونکہ کتوں کو دور سے بھی مارا جاسکتا ہے اور ہوسکتا ہے قریب جانے کا موقعہ نہ ملے۔
ہمارے علاقے کا قبرستان تین اطراف سے تقریباً کُھلا ہے۔ یعنی ایک طرف سِول کلب اور پھر کھلا علاقہ اور ساتھ ہی فٹبال گراؤنڈ۔
صرف ایک سمت ایسی تھی جس میں قبرستان کا گیٹ لگا تھا اور اس سے متصل چاردیواری، گیٹ کے ایک طرف گودام اور دوسری طرف چاردیواری کے ساتھ کچھ گھر تھے۔ یعنی یہ تین اطراف سے گھِرا ہوا ایک چوکور ڈبہ نما جگہ تھی اور اس حصے میں اس وقت قبریں بالکل بھی نہیں تھیں اور ہمارا یہ مشن تھا کہ اس غولِ بیابانی کو گھیر کر اس چوکور ڈبہ میں لایا جائے تاکہ قبروں کی بے حرمتی نہ ہو پائے اور اِدھر ان کی جم کر دھنائی بھی ہوسکے۔
ہم نے اپنا ایک دستہ فٹبال گراؤنڈ کی طرف سے بھیجا اور ایک دستہ کلب کی طرف سے جس کی قیادت میں خود کررہا تھا۔
سب سے پہلے میں اپنی پتھروں سے بھری جیبوں اور دونوں ہاتھوں میں پتھر اٹھائے آگے بڑھا اور بیچ قبرستان میں میری نظر سب سے پہلے ایک جسیم بوہلی کتے پر پڑی جو اس گروپ کا سرغنہ تھا۔ اُس نے آہٹ سنتے ہی سر اٹھا کر دانت نکوسے اور میری طرف لپکا لیکن اس کے میرے تک پہنچنے سے پہلے میرے ہاتھوں سے تیر کی مانند پتھر نکلا اور وہ کتا لڑکھڑا گیا اور اس کے خونخوار ساتھی فوراً بھونکتے ہوئے میری طرف لپکے۔
اسی اثنا میں ہمارے ہراول دستوں نے ہر طرف سے حملہ کردیا، ڈنڈے لہراتے لڑکے اور بچے ریڈ انڈینز کی یاد دلا رہے تھے۔ جیسے ہی میری طرف لپکتے کتوں کی نظریں ان پر پڑیں، انہوں نے اپنا فرار کا رستہ ڈھونڈنا شروع کیا جو صرف ایک تھا یعنی گیٹ! جس کے ساتھ دیوار اور دونوں اطراف گھر اور گودام تھا۔ اب وہ تمام کتے اس طرف لپکے لیکن ہمارے ایک جانباز نے فوراً گیٹ بند کردیا۔
اب کوئی پندرہ کے قریب کتے تھے لیکن اب ہمارے پتھروں، اینٹوں اور ڈنڈوں کے آگے بےبس تھے۔ وہ ہمارے آگے آگے اور ہم سب ان کے پیچھے تھے۔ ایک کتے نے ایک لمبی چھلانگ ماری اور تقریباً آٹھ فٹ اونچی دیوار پر چھلانگ مار کر چڑھ گیا۔ ایک کتا گیٹ کی سلاخوں میں سے نکلنے کی کوشش میں پھنس گیا اور ہمارے وحشی سپاہیوں کے ہتھے چڑھ گیا۔ اب آگے آگے بھاگتے لمبی چھلانگیں لگاتے کتے تھے اور ان پر بے جگری سے حملہ کرتے ہم جاں باز۔
دھنادھن پتھر اینٹیں اور ڈنڈے برس رہے تھے اور کتوں کے ساتھ کتوں والی ہورہی تھی۔ وہ ادھر ادھر گررہے تھے اور ہمارے حملوں میں شدت آتی جاتی رہی تھی۔ چشم فلک نے اتنا بھرپور اور جانباز حملہ نہ دیکھا ہوگا اور کاش اس کو ریکارڈ کیا جاسکتا۔
ہمارے پتھر ختم ہوچکے تھے اور کتوں کو ہمارے درمیان سے نکلنے کا موقعہ مل رہا تھا کہ اچانک ہمیں تازہ کمک آس پاس کے گھروں سے نکلنے والی خواتین، بچوں اور مردوں کی صورت میں ملی جو ڈنڈے، بیلن اور پتھروں سے لیس تھی۔ کچھ نے آتے ہی جوتے اتار کر برسانے شروع کردیے۔ ان لوگوں نے بتایا کہ یہ خونخوار کتے ہمارا ایک گدھے کا بچہ اور بکری کا بچہ بھی کھا چکے تھے۔ یہاں تک کہ ان کی مرغیوں کے ساتھ ساتھ چھوٹے بچوں پر بھی حملہ کرتے تھے۔ آپ لوگوں کا شکریہ کہ آپ فرشتہ بن کر آئے۔
دس سے پندرہ منٹ کی جنگ میں تمام کتے پسپا ہوکر ریلوے لائین کی دوسری طرف بھاگ گئے۔ ہمارے جانباز انکا پیچھا کرنے کا سوچ رہے تھے لیکن میں نے کہا نہیں اس کی ضرورت نہیں۔ وہ آئندہ ادھر کا رخ نہیں کریں گے اور اگر کیا تو آس پڑوس والے انہیں نہیں چھوڑیں گے۔ اس طرح وہ تمام کتے ہمارا علاقہ چھوڑ گئے۔
اس واقعے کے بعد ایک دن ہم دو دوست ریلوے سٹیشن کی طرف جارہے تھے تو ایک جسیم کتا مخالف سمت سے ہمیں کانی آنکھ کرکے دیکھتا ہوا بڑی شرافت سے گزرا جیسے کبھی ہم گزرتے تھے۔ میں نے فوراً اسے پہچان لیا کہ یہ اس ہی گروپ کا رکن تھا جس کو ہم نے تہس نہس کردیا۔
تو دوستوں ہم لوگ شرارتوں کے ساتھ ساتھ فلاحی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ امید ہے آپ بھی ہمارے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کریں گے۔