Sunday, 15 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Aziz
  4. Government High School Ki Yaadein

Government High School Ki Yaadein

گورنمنٹ ہائی سکول کی یادیں

آج میں آپ لوگوں کے ساتھ کچھ ہائی سکول کی یادیں بانٹوں گا۔ جو لوگ گورنمنٹ سکولوں کے پڑھے ہوئے ہیں تو ان سب میں سے کسی نہ کسی کے ساتھ ایسا ہوا ہوگا۔۔

ہمارے پانچویں جماعت تک امتحانوں میں زبانی سوال جواب ہوتے تھے لیکن جب ہم چھٹی جماعت یعنی ہائی سکول میں آئے تو ششماہی امتحانوں کے دوران ریاضی کے پرچے میں کہا گیا پورا سوال لکھنے کے بجائے صرف سوال کا نمبر لکھنا ہے اور پھر جواب۔۔ الحمداللہ میرا ریاضی بہت اچھا تھا اسلیے میں نے جلدی جلدی پرچہ حل کیا اور استاد جی کو دے دیا۔

جب کچھ دنوں بعد ریاضی کا پرچہ واپس دیا گیا تو سب دوستوں کے سو سو نمبر اور میرے پینتیس۔۔

میں نے ریاضی کی کتاب سے جوابات چیک کیے تو تمام درست تھے پھر دوستوں سے صلح مشورہ کیا تو وہ ہکا بکا رہ گئے کہ میں نے ڈیڑھ صفحے پر تمام پرچہ حل کرلیا تھا۔ یعنی صرف سوال نمبر لکھا اور اس کے بعد ذہن میں سوالات حل کرکے صرف جواب۔۔

تب پتا لگا کہ عمل بھی لکھنا تھا خیر سادہ لوگوں کی سادہ باتیں۔۔

الحمدللہ ہمارے اساتذہ کرام کو مارنے کا خاص شوق ہوتا تھا لیکن جو پٹائی میرے دوست مجید "ڈھیتے" کی ہوئی وہ تاریخ کے اوراق میں رقم ہوگئی۔

واقعہ کچھ ایسے ہوا کہ ہمارا دوست ڈھیتا ہمارے سائنس کے استاد کے ہتھے چڑھ گیا۔ پٹائی کے دوران انہوں نے اسکو ایک تھپڑ مارا تو وہ سیدھا انکی "کرسی" پر جاکر "وزیر اعظم" بن کر بیٹھ گیا اور یہ منظر دیکھتے ہی اس سنگین صورتحال کے باوجود ہم ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئے۔

استاد جی کو غصہ ساتویں آسمان پر پہنچ چکا تھا۔ انہوں نے اس کو کرسی سے اٹھا کر دھکا مارا تو وہ گھڑے پر جاکر گرا تو گھڑا ٹوٹ گیا اور وہ آدھے ٹوٹے ہوئے گھڑے میں یوں بیٹھ گیا جیسا "ٹوٹے ہوئے انڈے پر چوزہ بیٹھا ہو"۔ یہ منظر دیکھ کر ساری جماعت اور ہمارا گروپ جو ہنسنے کے بہانے ڈھونڈتا تھا ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگیا۔

اب ہمارے استاد جی نے ڈھیتے کو "انڈے" پر بیٹھا چھوڑ دیا اور ہمیں جو دھویا وہ بھی تاریخ کے اوراق میں رقم ہوگیا۔ یقین کریں"ڈاکخانے" پر اتنے "ٹکٹ ثبت" کیے گئے کہ کوئی جگہ خالی ہی نہیں بچی تھی لیکن جیسے ہی ڈھیتے کا کرسی اور ٹوٹے گھڑے پر بیٹھا ہوا خاکہ ذہن میں آتا تو بے اختیار ہنسی نکل جاتی تھی۔۔

اس ہی طرح ایک دن ہمارے استاد جی باہر تھے اور ہم سب ٹکا کر شور شرابہ اور شرارتیں کررہے تھے اچانک استاد جی کمرے میں داخل ہوئے اور سب کو مرغا بننے کا حکم دیا اور ہر کسی کے سر پر پہنچ کر کہتے کہ "توپوں" کا رخ اوپر کرو" اور ساتھ ہی دس نمبر سوفٹی کا نشان "ڈاکخانے پر ثبت" ہوجاتا۔

انور "گرنیڈ" کی قسمت خراب تھی یا کہہ لیجیے کہ استاد جی کی قسمت خراب تھی کہ جیسے ہی استاد جی نے اس کے "ڈاک خانے" کو چھو کر کہا "توپ اوپر" تو گرنیڈ نے اوپر کرتے ہی "فائر" نکال دیا جو سیدھا ناک کے راستے استاد جی کے دماغ میں پہنچ گیا۔

اس بروقت کاروائی پر ہمارا ہنس ہنس کر برا حال ہوگیا لیکن دوسرے لمحے ہی استاد جی نے ایک ٹانگ اس کو رسید کی جس کے نتیجے میں وہ پوری قطار کو اپنے سمیت لےکر ڈھیر ہوگیا۔

اس ہی طرح ایک دفعہ ہفتم (ساتویں) جماعت میں میرے اسی دوست اور محلے دار انور "گرنیڈ" کے پیٹ میں درد اٹھا اور وہ تڑپ اٹھا۔

استاد جی نے مجھے اور میرے ہم جماعت جبار کو کہا کہ "اس کو ساتھ والے سول ہسپتال لے جاؤ"۔ "یار! لیٹرین جانا ہے تو ہو آ، کیوں ڈرامے کررہا ہے" مجھے گرنیڈ کا پتا تھا اس لیے میں نے اس کے کان میں سرگوشی کی۔

"نہیں بھائی میرے پیٹ میں سچ مچ درد ہے" اس نے کراہتے ہوئے جواب دیا۔

"یار! ڈاکٹر انجکشن لگائے گا" میں نے اس کو ڈرایا۔

لیکن وہ پیٹ پکڑے کراہتا رہا۔

"ابے! تو لے کر کیوں نہیں جاتا" استاد جی نے ایک کرارا تھپڑ میری گدی پر جڑا۔

میں نے گفت و شنید ترک کی اور جبار کے ساتھ اسکو بازؤں سے پکڑ کر ساتھ والے ہسپتال کی طرف چل پڑا۔

جیسے ہی ہم ہسپتال کے اندر داخل ہوئے تو وہ اچانک بیٹھ گیا۔

ہم نے جیسے تیسے اس کو اٹھایا اور ڈاکٹر کے کمرے کی طرف چل پڑے۔

"یہ بدبو کیسی ہے؟" جبار نے ناک سکیڑا۔

"اوئے ہوئے" میں نے گرنیڈ کی طرف دیکھا جو ٹانگیں چوڑی کرکے چل رہا تھا۔

"بیڑا غرق! " میں غرایا اور اس نے باآواز بلند رونا شروع کردیا۔

اتنی دیر میں ڈاکٹر صاحب بھی کمرے سے نکل آئے "کیا ہوا؟ کیوں رو رہے ہو؟" انہوں نے پوچھا۔

"اس کے پیٹ میں درد تھا اور استاد جی نے آپ کے پاس بھیجا تھا کہ ٹیکا لگوا لاؤ" میں نے سبق سنایا۔

"کیوں بھئی کیسے ہو" انہوں نے گرنیڈ سے پوچھا جس کی رونے کی رفتار ٹیکے کا سن کر اور بڑھ گئی تھی۔

"میں بالکل ٹھیک ہوں لیکن میری شلوار" گرنیڈ سسکتے ہوئے بولا۔

"او ہو! چلو بھئی دھلوا دو، ٹیوب ویل چل رہا ہے" ڈاکٹر صاحب نے حکم جاری فرما دیا۔

"یار! میں اس کے گھر جاکر دوسری شلوار لاتا ہوں تو دھلوا" جبار یہ کہتے ہوئے رفو چکر ہوگیا۔

اب گرنیڈ روتا جائے اور اپنی ٹانگیں دھوتا جائے۔

"یار اس سوغات کو دور پھینک دے اور رونا بند کر" میں جھنجھلا کر بولا۔

"اور تو لیٹرین کیوں نہیں گیا تھا" میں غرایا۔

"ادھر جن ہوتے ہیں" جواب آیا۔

میں نے اپنا سر پیٹ لیا۔ ویسے تمام سکولوں کے لیٹرین میں جن کیوں ہوتے تھے یہ سوال آج بھی میرے ذہن میں ہے۔

ہمارے کافی اساتذہ کرام کو اِدھر اُدھر کے قصے سنانے کا بہت شوق تھا اور جب وہ قصے سنایا کرتے تو ہماری عید ہوجاتی کہ پڑھائی سے جان چھوٹی لیکن وہ قصے بھی بہت سبق آموز ہوتے تھے۔

جیسے ہی سکول کی چھٹی کی گھنٹی بجتی تو تمام لڑکے "چھٹ۔۔ ی" کانعرہ یوں مارتے جیسا گھنٹی نہیں انکی آواز سن کر چھٹی دی جارہی ہے اور بگٹٹ دروازے کے طرف بھاگتے اور دروازے پر چوکیدار اگر فوراً دروازہ نہ کھول دیا کرتا تو مجھے یقین تھا کہ لڑکے دروازے کو توڑتے ہوئے گزر جایا کرتے۔

دہم جماعت کے بورڈ کے پرچوں کے دوران جب بھی میرے دوست پرچہ دے کر آتے تو اتنی خوشی کا اظہار کرتے کہ بندہ کا "تراہ" نکل جاتا۔

ہم دس دفعہ امتحان گاہ سے باہر آکر سوال جواب چیک کرتے لیکن بمشکل پچاس نمبر حاصل کرپاتے اور وہ صاحبان تو آرام سے فرسٹ ڈویژن حاصل کرلیتے اور ساتھ ہی بتاتے کہ چار شیٹیں بھی لگائیں تھیں۔

امتحانوں کے بعد سائنس کے طالبعلم ہونے کے ناطے ہمارے پریکٹیکل ہونے تھے لیکن ہمارا برا حال تھا کیونکہ ہم نے کبھی تجربہ گاہ "لیبارٹری" میں قدم تک نہیں رکھا تھا کیونکہ سکول والوں کو وہ تمام چیزیں زیادہ عزیز تھیں۔ ہم سے وعدہ کیا گیا تھا کہ امتحانوں کے بعد پریکٹیکل "عملی کام" سے پہلے تجربہ گاہ میں لے جائیں گے لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو پورا ہو۔

ہم نے "پریکٹیکل کی کاپی" خاص محنت سے تیار کی جس میں کچھ چھاپے لگائے اور کچھ خالصتاً اپنی محنت سے تصاویر بنائیں اور تمام تجربوں کے عمل لکھ دیے اور جب پریکٹیکل ہوئے تو صرف کاپی دیکھ کر انہوں نے جاؤ تم پاس ہو کیونکہ انہیں پتا تھا ان بےچاروں نے کبھی دھون بوتل دیکھی ہی نہیں ہوگی تو تجربہ خاک کریں گے۔

جب نتیجے آیا تو ہمیں اپنے کانوں اور آنکھوں پر یقین نہ آیا کہ ہم نے "جو بمشکل پاس ہورہے تھے" ہائی فرسٹ ڈویژن حاصل کرلی اور ہمارے تمام دوست جو فرسٹ ڈویژن حاصل کررہے تھے بمشکل سیکنڈ ڈویژن حاصل کرپائے۔

اور میں آج بھی حیران ہوں کہ وہ سب باہر آکر اتنی شوخیاں کیسے مار لیتے تھے۔

دہم جماعت میں ہمارے ہمارے سائنس کے استاد امتحانوں کے نزدیک زیرو پیریڈ بھی پڑھاتے تھے کہ ہم جیسے نکمے بھی پاس ہوجائیں اور انہیں اس چیز کے پیسے نہیں ملتے تھے لیکن صرف اور صرف طلباء کے بھلے کے لیے وہ یہ مشقت اٹھاتے تھے۔ اللہ انہیں اور تمام اساتذہ کرام جو اس دنیا سے چلے گئے ہیں جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے۔

Check Also

Aisa Nahi Hota

By Khateeb Ahmad