Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Aziz
  4. Eid Ul Zuha Special

Eid Ul Zuha Special

عید الضحیٰ سپیشل

میرا ایک ہمسایہ ہے تنخواہ لاکھوں میں ہے اور صاحب استطاعت ہونے کے باوجود قربانی کرنے سے قاصر ہے۔ اس کی وجہ بینک سے قرضہ ہے۔ ویسے اس کے علاوہ بھی بہت سے صاحب استطاعت لوگ اس واجب کو ادا نہیں کرتے کہ "دل" نہیں ہے۔

ایک اور ہمسایہ ہے جس کی بیوی بھی کپڑے سی کر اپنے خاوند کا ہاتھ بٹا رہی ہے لیکن بکرا عید پر ایک مینڈھے کی قربانی ضرور کرتے ہیں کہ اللہ کے ہاں اس کا بہت اجر ہے۔

خیر یہ صرف ایک تجزیہ ہے اور میں زور نہیں دے رہا کہ قربانی کرو لیکن میرے نزدیک اگر آپ قربانی کررہے ہیں تو قربانی کا گوشت اگر صرف ان مستحق رشتے داروں، ہمسایوں اور سفید پوشوں میں تقسیم کریں جنہوں نے قربانی نہیں کی ہے تو میرے خیال میں گناہ نہیں ثواب ملے گا اور گوشت بھی ویسا تقسیم کریں جیسا اپنے لیے رکھا ہے نا کہ ہڈیاں اور چربی۔۔ ہمارے الٹا چلن ہے کہ اچھے خاصے کھاتے پیتے لوگوں کے ہاں اچھا گوشت بھجوایا جاتا ہے حالانکہ انہوں نے قربانی بھی کررکھی ہوتی ہے۔

اس پر میری ایک تحریر ایک دفعہ پھر میرے ان قارئین کے لیے جنہوں نے پہلے اسے نہیں پڑھا تھا۔

بڑی عید پر لوگ اپنی حیثیت کے مطابق بکرا یا گائے وغیرہ لیتے ہیں لیکن میرا ارب پتی دوست حاجی مستنگ اپنی حیثیت کے مطابق لازمی ایک گائے اور ایک بکرا لیتا ہے۔

الحمداللہ گائے کا گوشت تو ہم سب کے حصے میں آتا ہے لیکن بکرے کا گوشت کبھی دیکھنے کا موقعہ نہ ملا۔

ایک دفعہ میں نے ان سے پوچھ ہی لیا "حاجی صاحب گائے کا گوشت تو بنٹتا رہتا ہے لیکن بکرے کا سارا گوشت مدرسے کو جاتا ہے کیا؟"

میری بات سن کر انہوں نے میری طرف اس طرح دیکھا جیسے میں نے کوئی انہونی کہہ دی ہو۔

کہنے لگا "بکرے کے کتنے حصے ہوتے ہیں"

"فضیلت اس میں ہے کہ تین حصے ہوں، ایک آپ کا، ایک عزیزواقارب کا اور ایک غریب غرباء کا" میں نے عاجزی سے جواب دیا۔

"محلے میں کوئی گھر بچا ہے جہاں گائے کا گوشت نہ گیا ہو" سوال آیا۔

"نہیں جناب" جواب دیا۔

"تو بھائی صاحب! بکرے کا ایک حصہ میرا، دوسرا غرباء کا، جو میں اپنی نوکرانی کو دیتا ہوں اور فریج نہ ہونے کے باعث وہ گوشت لے کر بھی نہیں جاتی اور ویسے بھی اکثر دوپہر کا کھانا وہ ہمارے گھر ہی سے کھاتی ہے تو تمہاری بھابھی نے اس سے کہہ رکھا ہے کہ عید کے دنوں میں بھی ادھر سے کھایا کرو بلکہ رات کا کھانا بھی کھا کر جایا کرو (یعنی رات تک کام کروایا جائے)" حاجی صاحب نے فرمایا۔

"پر حاجی صاحب وہ تیسرا حصہ؟" ڈرتے ڈرتے پوچھا۔

"وہ تیسرا حصہ! میرا دور کا رشتہ دار ہے کرامت! اس کو میں سارا تیسرا حصہ دے دیتا ہوں لیکن اس کا "یورک ایسڈ" بڑھا ہوا ہے اس لئے وہ سارا گوشت مجھے تحفتاً دے دیتا کہ حاجی صاحب آپ اس غریب کی طرف سے تحفہ قبول کریں۔۔ اب غریب کا دل تو توڑا نہیں جاسکتا نا" حاجی صاحب نے تھوڑا سا آنکھیں چراتے ہوئے جواب دیا۔

ویسے عید کے دن ہم سب دوستوں کا دوپہر کا کھانا ان کی ہی طرف ہوتا ہے لیکن ہمیشہ بغیر اے سی والے کمرے کے حبس زدہ ماحول میں پسینم پسین ہوتے ہوئے اور اکثر ہم قمیضیں اتار کر بنیان اور شلوار میں کھانے کھاتے ہیں بلکہ ایک دفعہ تو میں سینڈو بنیان اور کچھے (نیکر) میں کھانا کھانے گیا تھا کیونکہ ہم بھی ان کا دل نہیں توڑ سکتے۔

ایک دفعہ ہمت کرکے خلیل کھاؤ پیر نے پوچھ ہی لیا کہ "حاجی صاحب جہاں اتنا خرچہ کردیا ہے وہاں اگر اے سی والے کمرے میں بٹھا کر کھانا کھلا دیں گے تو اللہ کے فضل و کرم سے ایک گھنٹے میں بل پر اور آپ کے خزانوں پر کوئی زیادہ اثر نہیں پڑے گا۔ "

"ایک یونٹ سے بل کا ریٹ دس روپے سے بیس پر چلا جاتا ہے اور اس سے اوپر ہر یونٹ کا ذمہ دار یہی ایک یونٹ ہوگا لیکن میں یہ صرف تمہارے فائدے کے لئے ہی کرتا ہوں کیونکہ ٹھنڈے کمرے میں تمہیں آجائے گی نیند، اور پھر کھانا کھانے کا مزا بھی نہیں آئے گا۔ " حاجی صاحب نے بڑا مدلل جواب دیا۔

امجد کھاؤ پیر نے ماتھے سے ٹپکتے ہوئے پسینے کو ہاتھ کی پشت سے صاف کرتے ہوئے حاجی صاحب کی محبت کو داد دی اور ہم سب کو تیزی سے ختم کرتے ہوئے قورمے کی پرانت کی طرف ہاتھ بڑھا دیا۔

Check Also

Na Milen Ke Bharam Qaim Rahe

By Rauf Klasra