Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Aziz
  4. Eid Aur Aabadi Qasba

Eid Aur Aabadi Qasba

عید اور آبائی قصبہ

آج وہ اپنی جوان ہوتی اولاد اور دن بدن چڑچڑی ہوتی بیوی کے باتیں سن رہا تھا کہ ہم عید کرنے آپ کے آبائی قصبے کیوں جائیں؟ کون ہے وہاں آپ کا؟ آپ کے والدین تو فوت ہوگئے ہیں، آپ ہر سال عید منانے اُدھر کیوں جاتے ہیں؟

خرم نے روزگار کے سلسلے میں اپناآبائی قصبہ عرصہ دراز ہوئے چھوڑا تھا لیکن اس کا دل اُدھر ہی لٹکا رہتا تھا۔ جیسے ہی کوئی عوامی چھٹی یا عید آتی وہ بس کی چھت پر سوار، یا پھر ریل گاڑی کے فرش پر بیٹھ کر اپنے قصبے، اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے پاس عید کرنے پہنچ جاتا۔

اس کے بہن بھائیوں اور پھر کچھ عرصے میں اس کی بھی شادی ہوگئی اور اس نے شہر میں مستقل ٹھکانہ بھی بنا لیا لیکن اس کا جنوں وہی رہا۔ پھر والدین کے انتقال کے بعد وہ جو گاہے بگاہے چکر لگتے تھے وہ بھی ختم ہوگئے اور بات صرف عیدکے عید چکر لگانے تک محدود ہوگئی۔

آج وہ بچوں اور بیوی کی عدالت میں کھڑا کیسے انہیں سمجھائے کہ شہر کی مصنوعی زندگی میں اس کا دم گھٹتا ہے جہاں عزت کا معیار پانچ، دس مرلہ اور کنال کا گھر ہے۔ جہاں دفتری معاملات طے کرتے کرتے اس کے چہرے پر کرختگی آچکی ہے۔ وہ کیسے انہیں بتائے کہ اسے اپنے پرانے گھر اور محلے میں اپنے ماں باپ کی خوشبو آتی ہے۔

ادھر کے گوشے گوشے میں اس کے بچپن کی یادیں بکھری ہوئی ہیں۔ پرانے محلے کے چچا آفتاب اور چچا جلیل جب اسے دیکھتے ہی بانہیں پھیلا کے بیٹا کہہ کر گلے لگاتے ہیں تو والد کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ وہ اس کے بچپن کی کوئی بات یا پھر اس کے والد کی کوئی بات بتا کر اسے ماضی میں پہنچا دیتے ہیں۔ محلے کی بزرگوں کی دعائیں لیتا وہ پھر سے بچہ بن جاتا ہے اور اس کے چہرے کی معصومیت واپس آنے لگتی ہے۔

اسے خالہ سیرت اور خالہ رقیہ جب بیٹا کہہ کر پکارتی ہیں تو اسے ماں کی یاد آتی ہے۔ جب چچی نسیم سبزی کے ٹھیلے سے سبزی لے رہی ہوتی ہیں اور اسے کہتی ہیں بیٹا ذرا بتا اسےکہ سبزی کیوں مہنگی دے رہا ہے تو اسے اپنی ماں بھی وہیں کھڑی نظر آتی ہے۔ وہ پھر سے بچہ بن کر سبزی والے سے ہنسی مزاق کرنے لگتا ہے۔

محلے کی گلیوں اور قصبے کی سڑکوں پر اسے اکیلے پن کا احساس نہیں ہوتا ہے کیونکہ کوئی نہ کوئی بچہ اسے سلام کرتا، اس کا ہم عمر اس سے مذاق کرتا اور بزرگ دعا دیتا مل جاتا ہے۔

وہ جب اپنے بزرگوں کی قبور پر دعا کے لئے حاضری دیتا ہے اور ہمیشہ کی طرح اپنی پریشانیاں ان سے بانٹتا ہے تو اسے اپنے دل میں بے پناہ سکون اترتا محسوس ہوتا ہے۔ لیکن وہ یہ سب کچھ کس کو بتائے؟ اپنا یہ غم کس کو سنائے؟ اور کس کے گلے لگ کے روئے؟ کیونکہ مردوں کا دل نہیں ہوتا اور وہ رویا نہیں کرتے۔

Check Also

2025 Kya Lekar Aaye Ga?

By Muhammad Salahuddin