Friday, 08 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Aziz
  4. Cycle, Raksha Aur Hum

Cycle, Raksha Aur Hum

سائیکل، رکشہ اور ہم

کالج دور کی بات ہے ہم اپنے شہر سے نزدیکی شہر بہاولپور پڑھنے کے لئے لوکل بسوں میں مفت سفر کرتے تھے۔ بہالپور بس اڈے پہنچ کر کالج جانے کے لئے ہم ایک دوسری بس پکڑتے اور بالعموم اسکے پیچھے لگی سیڑھیوں پر ہمارا ایک پیر اور گرل پر ایک ہاتھ ہوتا تھا۔ دوسرا پیر اور ہاتھ عموماً ہوا میں معلق ہوتے تھے۔

بعض اوقات ہم دو تین یا کبھی چار دوست سائیکل رکشے کی سواری کا لطف بھی اٹھاتے تھے۔ اس ہی طرح کسی دوسرے گاؤں سے آئی ہوئی کوئی چار پانچ طالبات روز ہی رکشے میں سفر کرتی تھیں۔

اکثر ہمارے رکشے کا انکے رکشے والے سے مقابلہ لگتا اور اللہ جھوٹ نہ بلوائے انکا رکشے والا ہوا میں "اُٹھ اُٹھ" کر رکشہ اڑا رہا ہوتا اور ہمارا ہر رکشے والا کسی "تھکی کھوتی" کی طرح "لم لیٹ" ہوکر رکشہ "گھسیٹتا" تھا اور ہمیں دس منٹ لیٹ ہی پہنچاتا تھا۔

ہم نے غور کیا کہ انکا رکشے والا "جاندار" ہے اور ہمیں جو رکشے والا اکثر ملتا ہے وہ اپنی "جسامت" اور "کرتوتوں" سے "جہاز" ہی لگتا تھا اور ہماری "ہلہ شیری" کے باوجود "چرسیانہ" رفتار ہی رکھتا تھا۔

ایک دن ہم دوستوں نے دیکھا کہ ان کے رکشے والا خالی کھڑا ہے اور لگتا ہے وہ آج دیر سے پہنچیں گی۔ ہم فوراً سے پیشتر اس تک پہنچے اور اس میں براجمان ہو گئے۔ آج ہم صرف تین دوست تھے جو باآسانی اسکی سیٹ میں سما گئے۔

"چل بھئی شہزادے" میں نے اسکو حکم دیا۔

اس نے پہلا پیڈل مارا اور پھر دوسرا لیکن اس طرح "تھکے ٹوٹے" انداز میں مارا جیسے اسکے "گوڈے گٹوں" سے پانی "مُک" گیا ہو۔

ہم اڈے سے باہر نکلے اور پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ پانچوں ہمارے "جہاز" رکشے والے کی طرف جا رہی تھیں۔ ہم تینوں نے فاتحانہ انداز میں "فتح" کا نشان بنایا اور سیدھے ہوکر بیٹھ گئے کہ آج تو پہلے پہنچیں گے۔

لیکن آج ہمارا رکشے والا لگتا ہے رکشہ چلانا ہی بھول گیا تھا اور بمشکل سیٹ سے اچکنے کی کوشش کرتے ہوئے رکشہ چلا رہا تھا۔

ہم نے تشویش سے پوچھا کہ" بھائی ٹارزن کیا ہوا؟ سیل ختم ہوگئے ہیں کیا؟"

"نہیں سر جی!" بڑی مشکل سے آواز نکلی۔

اسی اثنا میں ہمارے کانوں میں "کھلکھلاہٹ" کی آواز آئی۔ او بیڑا غرق! وہ رکشے والا جو شائید اپنے اوپر سے مکھی نہ ہٹا سکے، آج اس نے "اچھل اچھل" کر اپنے "سائیکل" رکشے کو "راکٹ" بنا رکھا تھا اور تیزی سے ہمیں کراس کرگیا۔

"استاد! ان کو کاٹ" نواز بولا۔

لیکن حرام ہے جو ہمارے رکشے کوشرم آئی ہو۔

"یار! پیسے زیادہ دوں گا، آج انکو کراس کردے" عالمگیر بولا۔

"سنبھلو!" اس نے اپنی پوری ہمت مجتمع کی اور تیزی سے پیڈل مارے لیکن ابھی ہم خوشی سے دانت نکال بھی نہ پائے تھے کہ رکشے کا پہیہ ایک بڑے پتھر پر آیا اور اس کے ساتھ ہی رکشہ کسی سگ آوارہ کی طرح الٹا لیٹ گیا اور ہم اِدھر اُدھر اڑتے ہوئے کسی "مریل برائیلر مرغی" کی طرح جا پڑے۔

اب شرم کے مارے اٹھ بھی نہ پائیں لیکن پھر کسی کو مدد کے لئے نہ آتا دیکھ کر ڈھیٹ بن کر اٹھ کھڑے ہوئے اور رکشے والے کی شان میں بے نقط سنائیں اور توبہ کرلی کہ اپنے رکشے کا مقابلہ صنف نازک کے رکشے سے نہیں لگوائیں گے۔

Check Also

Aati Hai Baat Baat Mujhe Baar Baar Yaad

By Athar Rasool Haider