Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Aziz
  4. Chota Thanedar

Chota Thanedar

چھوٹا تھانے دار

گریجویشن کے امتحانات کے بعد مابدولت کے تین ہی کام تھے یعنی سونا، کھانا اور پھرنا کہ ایک دن اچانک ناشتے کے دوران اخبار میں ایک اشتہار دیکھا کہ پنجاب حکومت کو چاک و چوبند، پھرتیلے، فرض شناس اور انتہائی ایماندار اے ایس آئی (اسسٹنٹ سب انسپکٹرز) کی ضرورت ہے۔ میں نے اپنے سراپے پر نگاہ دوڑائی تو تمام خوبیاں بدرجہ اتم پائیں۔

ابو حضور کے سامنے پیش ہوئے تو فرمایا سوچ لو تنخواہ انتہائی کم ہوگی اور حرام کھانے کی میں تمہیں بالکل اجازت نہیں دوں گا ویسے تم گریجویشن کے بعد کسی اعلیٰ سیٹ کی کوشش کرو یا پھر بہتر ہوگا کہ تم کمپیوٹر کی تعلیم حاصل کرو۔ میں نے تازہ تازہ ایماندار پولیس والوں کی فلمیں دیکھی تھیں تو انتہائی جذباتی انداز میں کہا "ابو جی! آپ نے یہ کیسے سوچ بھی لیا کہ آپ کا بیٹا ایسا کام کرے گا۔ ان شا اللہ تمام مجرموں کو سیدھا جیل کا راستہ دکھاؤں گا۔

خیر درخواست وغیرہ جمع کروائی گئی اور مقررہ تاریخ سے پہلے ورزش وغیرہ شروع کردی گئی۔

مقررہ تاریخ کو سب سے پہلے قد، وزن، چھاتی کی پیمائش وغیرہ کی گئی۔

ہمارے ایک دبلے پتلے دوست نے اپنی چھاتی پورازور لگا کر پھلائی لیکن ایک اصیل ککڑ کے برابر ہی نکلی۔ پولیس والے نے کہا جاؤ بھائی کچھ کھایا پیا کرو تو جواب آیا "سر جی! کھانے کا موقعہ دیں گے تو کھائیں گے نا"۔۔ موقعے پر اسے دبکا لگا کر بھگا دیا گیا۔

میرے آگے انور گرنیڈ تھا جس نے چھاتی کی پیمائش کے وقت سارا زور چھاتی پھلانے پر لگا دیا اور نتیجہ ایک زور دار آواز پر ختم ہوا جس سے پورا سنٹر گونج اٹھا اور ہم سب ہنس ہنس کر دہرے ہوگئے۔

الحمداللہ میں اس مرحلے سے بخوبی گزر گیا۔ اب تین دن بعد آٹھ جون کے سہانے دن ہم نے آٹھ کلومیٹر ایک گھنٹے میں کرنے تھے۔

اب میرے دن رات اس ہی سوچ میں گزر رہے تھے کہ افسر بننے کے بعد کیا کرنا ہے۔ ایک دفعہ ایک مجرم نے میرے سامنے کرسی پر بیٹھنے کی کوشش کی تھی میں نے ٹانگ کھینچ کر کرسی کو ماری تو مجرم نے خاک گرنا تھا الٹا میری ٹانگ لوٹے کو لگی اور میں واش روم میں دھڑام سے گرگیا۔

اس ہی طرح ایک دن مقامی وڈیرے کو میں نے غصے میں تھپڑ رسید کردیا اور جواب میں وہ میرے اوپر چڑھ دوڑا تو آنکھ کھلنے پر پتا چلا کہ میں نے ساتھ لیٹے بھائی کو چماٹ رسید کردی تھی جو غصے میں مجھ چڑھ دوڑا تھا۔

خیر! آٹھ جون کی گرما گرم ملتان ڈویژن کی سہانی دوپہر تھی اور دوسو بائیس جوان بھاگنے کے لیے تیار۔ جیسے ہی دوڑ شروع ہوئی میں نے تالیوں کی گونج میں انتہائی جوش میں سب سے سبقت لے لی لیکن بس ایک ڈیڑھ کلومیٹر کے بعد بیٹری نیچے جانے لگی اور مزے کی بات پانی کی بوتل بھی ساتھ نہیں تھی۔ اب میرے ساتھ والوں نے آہستہ آہستہ دوڑتے ہوئے مجھے پیچھے چھوڑنا شروع کردیا اور بالاآخر میں تھک ہار کر سڑک کے کنارے ایک پلی پر بیٹھ کر گالیاں دینے لگا۔

قریبی گاؤں والوں نے جب چھوٹے تھانیدار کو اس طرح بیٹھے دیکھا تو فوراً ٹھنڈا ٹھار پانی کا جگ لے کر آگئے اور میں نے غٹاغٹ پینے کے ساتھ ان سے وعدہ کیا کہ تھانیدار بنتے ہی آپ لوگوں سے ملنے آؤں گا۔ اب میں نے دوبارہ بھاگنا شروع کیا۔ میرے چاروں طرف سے پسینہ بہہ رہا تھا اور سورج لگ رہا تھا کہ سوا نیزے پر آگیا ہے۔ کچھ دیر بعد ایک گاؤں والے نے لسی کی پیش کش کی جو میں نے فوراً قبول کرلی۔ ابھی دوسرا گلاس چڑھا ہی رہا تھا کہ اسی اثنا میں ایک پولیس والا نزدیک سے گزرا اور بولا "آفیسر صاحب دس منٹ رہ گئے ہے بھاگو"۔۔

یہ سنتے ہی جیسے مجھ میں بجلی بھر گئی ہو۔ میں پوری طاقت سے بھاگا اور چشم زدن میں تمام لوگوں کو پیچھے چھوڑتا ہوا پہلے نمبر پر آگیا۔۔ رکیے جناب! ایسا صرف فلموں میں ہوتا حقیقت میں کچھ نہیں۔ خیر گرتے پڑتے آخر کار ایک پولیس والے کو مجھ پر ترس آگیا اور اس نے مجھے بائیک پر بٹھا کر منزل مقصود تک پہنچانا چاہا لیکن راستے میں ڈی ایس پی کی جھڑکی سن کر کچھ دور مجھے اتار دیا۔ میں نے ہمت نہیں ہاری اور آخری سو میٹر کا فاصلہ اپنے بل بوتے پر خود طے کرکے مقررہ وقت پر ادھر پہنچا لیکن فخر کی بات یہ رہی کہ میں پھاڈی (آخری نمبر) نہیں آیا بلکہ میرے بعد بھی ایک لڑکا پہنچا تھا یعنی آپ کا بھائی دو سو اکیسویں نمبر پر آیا تاھا اور وہ لڑکا دو سو بائسویں نمبر پر یعنی اس کا سب سے آخری نمبر تھا۔۔

دس جون کی سہانی دوپہر اور میں استاد نذر سائیکل والے کی دکان سے لی گئی کرائے کی سائیکل پر دوڑ میں حصہ لینے کو شلوار قمیض میں ملبوس بالکل تیار تھا۔ آج اک گھنٹے میں سولہ کلومیٹر طے کرنے تھے۔

دوڑ شروع ہوتے ہی میں نے حکمت عملی تبدیل کی اور بجائے فوراً آگے نکلنے کے مناسب رفتار رکھی اور پھر پسینہ آنکھوں میں آنے کی وجہ میں نے چلتی سائیکل پر قمیض اتار کر سر پر باندھ لی جو کہ اس طرح ہوا میں اڑ رہی تھی جیسے سپر مین یا ارطغرل کا اڑتا ہوا لبادہ۔۔

میں اپنے تئیں سائیکل پر سوار مجرموں کا پیچھا کررہا تھا اور اسی جوش میں میں آؤ دیکھا نہ تاؤ انھے وا پیڈل مار رہا تھا، وہ تو مجھے میرے ایک دوست نے آواز لگائی کہ رک جا وگرنہ میں نے اختتامی لکیر کو عبور کرکے کھیتوں میں اتر جانا تھا۔ الحمداللہ اس دفعہ میں سولہویں نمبر پر آیا تھا۔

شام کو ہم گرتے پڑتے گھر پہنچے۔۔ پھر کچھ عرصے بعد معلوم پڑا کہ منتخب کرنے کے لیے کوئی اور طریقہ کار اپنایا جائے گا۔ اس طرح یہ قوم ایک انتہائی بااصول، ایماندار اور فرض شناس پولیس آفیسر سے محروم رہ گئی۔

Check Also

Richard Grenell Aur Pakistan

By Muhammad Yousaf