Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Aziz
  4. Chaploos Khane Ka Election Aur Aqal Dushmani Ka Azeem U Shan Circus

Chaploos Khane Ka Election Aur Aqal Dushmani Ka Azeem U Shan Circus

چاپلوس خانے کا الیکشن اور عقل دشمنی کا عظیم الشان سرکس

پچھلے الیکشن میں اقتدار کی ہلکی سی بھاپ اٹھی نہیں تھی کہ چاپلوس خانے کے در و دیوار پر مکھیوں کی طرح چمٹنے والے بے شمار اُمیدوار آن دھمکے تھے۔

اب کی بار بھی، اس الیکشن کےبارے میں، مخبر کی زبان سے جو خبر نکلی وہ یہی کہ، 1100 میں سے صرف 350 ممبر بچے تھے، لیکن جیسے ہی الیکشن کی خوشبو فضا میں گھلی، اچانک 450 "حق حلال" کے نوٹوں کی کشتیاں کنارے لگ گئیں۔ عقل حیران، ایمان پریشان! اب 350 کی بجائے 800 لوگ ووٹ ڈالیں گے۔

صاحب بہادر کی رخصتی کے بعد پہلی دفعہ جیسے ضلعی انتظامیہ کے اندر مر چکے خلیے دوبارہ سانس لینے لگے۔ گذشتہ ایک سال سے مسلسل ستر اسی لاکھ کے نقصان سے چلنے کے بعد دوبارہ امید کی کرن پیدا ہونے لگی۔

اب ضیافتوں کے دسترخوان پر پلاؤ، قورمے اور "جناب، جناب" کی مالشیں اکٹھے چل رہی ہیں۔

چاپلوسی بدستور قومی کھیل ہے، بس پچ بدل گئی ہے۔

کبھی لائبریری کی اجڑی قبروں پر فوٹو سیشن، تو کبھی ووکیشنل انسٹیٹیوٹ کے کھنڈرات پر کھڑے ہو کر جھوٹے وعدوں کی قوالی۔

کیا بےشرمی کی بھی کوئی حد متعین ہوتی ہے؟ اقبال کے نام پر بننے والی وہ لائبریری جو علم کا مینار ہونی چاہیے تھی، اب ایک کرائے کےمکان میں آخری سانسیں گن رہی ہے اور غریب بچیوں کے ووکیشنل انسٹیٹیوٹ؟ فنڈز غالباً کسی "چچا" یا آنٹی کے پیٹ میں ایسے غائب ہوئے جیسے انصاف اس ملک سے۔ ادارہ وہیں کا وہیں۔ بےیارو مددگار، کرائے کی چھت تلے۔

اصل دکھ یہ نہیں کہ یہ سب ہو رہا ہے، دکھ یہ ہے کہ لوگ چپ ہیں۔ لودھراں والوں کا مزاج ایسا بن چکا ہے کہ ظلم، نااہلی اور چوری کو گلے لگاتے ہیں اور جو بولے، وہ باغی۔ ایسے میں بزدار جیسے کردار ہی زیب دیتے ہیں، جو آتے ہیں، اسپيڈو بند کرتے ہیں اور عوام کو پھر چنگ چی کے دھکوں کے حوالے کر دیتے ہیں تاکہ عزت نفس کا جنازہ روزانہ نکلتا رہے۔

مگر ہاں، کچھ دیے اب بھی جل رہے ہیں۔ مظفر اقبال، ڈاکٹر طاہر احمد اور ظہور احمد اور ان جیسے کردار آج بھی ثابت قدم کھڑے ہیں۔ نہ بکے، نہ جھکے، نہ تصویر کھنچوائی، نہ قوالی کی۔ یہ وہ چراغ ہیں جو یاد دلاتے ہیں کہ لودھراں کا ضمیر مکمل طور پر دفن نہیں ہوا۔ کچھ دھڑکنیں ابھی باقی ہیں۔ مجید ناشاد صاحب کا بھی میں مشکور ہوں کہ اس المیہ پر میرا پہلا کالم انہوں ہی نے چھاپا تھا۔

اور میں؟ میں ان شاء اللہ ان چمچوں کو آئینہ دکھاتا رہوں گا جو سمجھتے ہیں کہ شہر تصویری تقریروں یا چاپلوس خانوں سے ترقی کرتا ہے۔

یاد رکھو: ترقی تصویر، جھوٹ، یا نعرے سے نہیں، علم، اخلاق اور سچ سے آتی ہے اور یہ تینوں، بدقسمتی سے، تمھارے منشور میں ناپید ہیں۔

فی الحال تساں سارے چک کے رکھو۔

رب تواکو عقل ڈیوے۔ پرہوندے واسطے ضروری ہے دل تے دماغ اچ جا ہی ہووے۔۔

Check Also

Koi Darmiya Nahi Chahiye

By Abu Nasr