Behan Aur Eid
بہن اور عید
عید کی آمد کی ویسے تو ہر بچے کو خوشی ہوتی ہے کیونکہ ان سب کو عیدی کی آس ہوتی ہے لیکن جو آس ایک شادی شدہ لڑکی کو اپنے میکے کی طرف سے ہوتی ہے وہ ان سب پر بھاری ہوتی ہے۔ اگر ماں باپ بالخصوص ماں زندہ ہوتو وہ اپنی بیٹی کے لیے اپنے شوہر یا بھائیوں کو مجبور کرتی رہتی ہے اور لڑکی کو عید کسی نہ کسی طرح پہنچتی رہتی ہے۔ عیدی بے شک سو روپے بھی ہو تو لڑکی کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے اور وہ بہانے بہانے سے آنے جانے والوں سے اس کا تذکرہ کرتی رہتی ہے اور اپنی آنکھوں میں آئے ہوئے خوشی کے آنسو پونچھتی رہتی ہے۔
پرانے وقتوں میں بہت سے لوگ بیٹی کے گھر سے پانی پینا بھی گناہ سمجھتے تھے مطلب بیٹی پر کسی طرح کا بوجھ ڈالنا گواراہ نہیں کرتے تھے۔ وہ بیٹی کے گھر خالی ہاتھ جانا بھی گناہ سمجھتے تھے اور اگر بیٹی ہزار خرچ کرتی تو وہ اس سے چارگنا زیادہ اسے دے کر آنا فرض سمجھتے تھے۔
ماں باپ کے جانے کے بعد یہ ذمہ داری ماں جائے یعنی بھائیوں پرآجاتی تھی اور وہ اسے حتی الوسع نبھانے کی کوشش کرتے تھے اگر بھائی بہت غریب بھی ہوتا تو چپ سے سر جھکا کر اپنی بہن کو پانچ دس دے دیتا لیکن اس میں بھی اتنا خلوص ہوتا کہ بہن کے آنسو چھلک جاتے اور وہ ان پیسوں کو سینے سے لگا کر رکھتی تھی۔
ویسے تو اب بھی کچھ ایسے گھرانے ہیں جنہوں نے یہ روایت زندہ رکھی ہوئی ہے اور ماں باپ کے جانے کے بعد یا ان کی زندگی میں بھی بھائی اپنی بہن کو عیدی بھیجنا نہیں بھولتے ہیں۔ ان کی طرف سے عیدی پاکر بہن گھنٹوں شاداب رہتی ہے۔ بے شک یہ عیدی سینکڑوں میں ہو یا ہزاروں میں لیکن خلوص اور سچے دل سے دی گئی یہ عیدی اسے ماں کی یاد تازہ کروا جاتی ہے۔ اس کے ہاتھ بےساختہ اپنے بھائی کی سلامتی اور رزق کی فراوانی کے لیے اٹھ جاتے ہیں۔
لیکن بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ زیادہ تر گھرانوں میں یہ روایت اب دم توڑتی نظر آرہی ہے۔ بہت سے باحیثیت لوگ جو ہوٹلوں میں ایک وقت کے کھانے پر ہزاروں اڑا دیتے ہیں وہ عید پر بہنوں کے سامنے اخراجات کا رونا روتے ہوئے اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ بجائے بہنوں کو کچھ دینے کے ان ہی سے کچھ نہ کچھ اینٹھ لیا جائے اور اس پر مستزاد یہ کہ ان کی بیگم صاحبہ بھی منڈی (سر) ہلاتے ہوئے تائید کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے ایسے مظلومانہ منہ بنارہی ہوتی ہے کہ بہن اس سال کی زکوة ان کو دینے کی ٹھان لیتی ہے۔ تمام رونا رونے کے بعد بھائی صاحب عیدی اس طرح احسان جتلاتے ہوئے دیتے ہیں کہ بہنیں دل مسوس کر رہ جاتی ہیں اور فوراً سے پیشتر وہ عیدی اپنے بھتیجے بھتیجیوں میں بانٹ دیتی ہیں اور دل میں عہد باندھ لیتی ہیں کہ آئندہ بھائی سے کبھی ایسی امید نہ رکھیں گی۔
دوسری طرف اگر خدانخواستہ جب کبھی بھی بھائی پر برا وقت آجائے اور وہ بہنوں کی طرف دیکھے تو بہنیں اسے کبھی ناشاد نہیں کرتی ہیں اور سب سے پہلے اس کی مدد کو پہنچتی ہیں۔ اس کے صلے میں وہ بےچاری بھائی کی طرف سے صرف چند محبت بھرے جملے کی منتظر رہتی ہیں لیکن بھائی کام نکلتے ہی طوطے کی طرح آنکھیں پھیر لیتا ہے۔
اللہ تعالٰی ہم سب کو اپنی بہنوں کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)۔ یقین کیجیے بہنوں کی مدد کرکے آپ کے خزانے میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں آنے والی صرف دل بڑا کرنے کی ضرورت ہے۔
اگر آپ کی بہن ناراض ہے یا آپ اس سے ناراض ہیں تو اٹھیں اور اس کو فون کریں، خیریت معلوم کریں۔ یقین کیجیے آپ کو سکون ہی سکون ملے گا ان شا اللہ۔
برائے مہربانی میری اس تحریر پر پھوپھی اور بھابھیوں کا رونا مت رویا جائے کیونکہ یہ صرف بھائی اور بہن کا معاملہ ہے۔