Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Aziz
  4. Bachay, Taleem Aur Karobar

Bachay, Taleem Aur Karobar

بچے، تعلیم اور کاروبار

آج کل سوشل میڈیا پر اس قسم کی ویڈیوز بہت زیادہ بنائی جارہی ہیں اور ہزاروں لاکھوں میں لائکس، شئیر اور تبصرے ہورہے ہیں۔۔ یاد رہے اس قسم کی ویڈیوز بھارت اور پاکستان دونوں جگہ پر بنائی جارہی ہیں۔۔

اس ویڈیو میں تین چار دوست بیٹھ کر چائے کے ہوٹل پر چائے پی رہے ہوتے ہیں اور ایک بندہ ان سے پوچھتا ہے کہ کیا تعلیم ہے اور کیا کرتے ہو تو ان میں سے کسی نے انجینیرنگ، کسی نے کمپیوٹر سائنس اور کسی نے ایم بی اے کیا ہوتا ہے اور سب بیک وقت کہتے ہیں ہم بے روزگار ہیں۔ پھر وہی بندہ ساتھ کھڑے چھوٹے سے بیرے سے پوچھتا ہے کہ تو وہ اپنے کندھے سے رومال اتار کر میز صاف کرتے ہوئے کہتا ہے "ان پڑھ ہوں اور روز کے پانچ ہزار کماتا ہوں۔۔ "

اب اس پر ایک مخصوص طبقے کے تبصرے پڑھنے والےہوتے ہیں جو کچھ اس طرح ہیں۔۔ ایک صاحب فرماتے ہیں "واہ واہ اپنا کاروبار اپنا ہوتا ہے"۔

دوسرےصاحب فخریہ انداز میں کہتے ہیں "ہم لوگ تو بچپن ہی سے بچے کو کاروبار پر لگا دیتے ہیں"۔

تیسرے صاحب فرماتے ہیں "تعلیم میں کیا رکھا ہے اپنا کاروبار اپنا ہے"۔۔

غرضیکہ ہر جاہل تعلیم کی جی بھر کر آتما رولتا ہے۔

اب بندہ ان سے پوچھے ریستوران پر جو چھوٹے ہوتے ہیں کبھی ان کی زندگی کا مطالعہ کیا ہے؟ ان کی معاشرے میں کیا عزت ہے؟ وہ ہوٹلوں پر کام کرنے والے ملازم ہوتے ہیں مالک نہیں جاہلو! ۔ یہ کاروبار ان کا نہیں مالک کا ہوتا ہے عقل کے اندھو! ۔۔

ورکشاپ، ہوٹلوں پر کام کرنے والے چھوٹوں میں سے شاید ہی کوئی جنسی درندگی سے بچ پاتا ہو۔ اس کے علاوہ مالک کے تھپڑ، مکے لاتیں ایک طرف۔۔

کچھ جاہل ابن جاہل اپنے بچے کو جہنم میں جھونک کر خوش ہوتے ہیں کہ ہمارا بچہ ہوش سنبھالتے ہی کماکر کھلا رہا ہے۔۔ لعنت ہو تم پر وحشیو! جو اپنے بچے سے اس کا بچپن پیدا ہوتے ہی چھین لیتے ہو۔ تم صرف اس لیے بچے پیدا کرتے ہو کہ وہ ہوش سنبھالتے ہی تمہارا پیٹ بھرے گا۔۔

اب کچھ نکھٹو ذہنی مریض کہیں گے کہ "تعلیم میں رکھا ہی کیا ہے؟" تو اے عقلمندو! اسلام میں تعلیم حاصل کرنے کو ایسے ہی نہیں کہا گیا ہے۔ اگر بچے پیدا کیے ہیں تو انہیں تعلیم اور شعور بھی دو ناکہ تھوڑا بڑا ہوتے ہی درندوں کے آگے پھینک دو تاکہ وہ بچہ بھی بڑا ہوکر ایک درندہ بن کر دوسرے بچوں سے انتقام لے لیکن تمہارے نزدیک وہ ایک کماؤ ہوگا جس کی عزت بھلے نہ ہو لیکن چار پیسے کماکر لے آئے۔۔

ابےجاہلو! پیسے تو ایک طوائف اور دلال بھی کمالیتا ہے تو اس میں اور تم میں کوئی فرق نہ ہوا۔۔ عزت تم سب کی ایک جیسی ہی ہے۔

سوشل میڈیا پر ویسے ہی جاہلوں کا تسلط ہے جن کے پاس پیسہ آگیا ہے وہ دل کھول کر اس کو دکھا دکھا کر نئی نسل کو برباد کر رہے ہیں کہ تعلیم میں کیا رکھا ہے بالکل اس طرح جیسے منشیات فروشوں نے ایک نسل کو نشے سے برباد کیا ہوا ہے کہ کش لو اور دنیا کو بھول جاؤ۔۔ یہ نشہ بھی ایک نسل کو برباد کرکے دم لے گا اگر ہم نے ہوش کے ناخن نہ لیے۔۔

اوہ یاد آیا کچھ ایسے ہی ذہنی مریض ایک بچے کی ریڑھی پر اکڑ کر بیٹھ کر ایک سرکاری ملازم سے بات کرتے ہوئے بھی تصویر فخر سے دکھاتے ہیں کہ "یہ ہوتی ہے اپنے کاروبار کی طاقت"۔۔

ابے جاہلو! کون سی دنیا میں رہتے ہو۔۔ میں اکثر کارپوریشن کے گریڈ چار پانچ کے ملازموں کو ان ریڑھی والوں کی ریڑھیاں الٹاتے ہوئے دیکھ رہا ہوتا ہوں اور وہ بے چارے منتیں ترلے کررہے ہوتے ہیں۔۔

میں زیادہ نہیں کہوں گا لیکن آپ میں سے کتنے ہیں جو ایک ان پڑھ ریڑھی والے سے جو روز کے تین ساڑھے تین اور ماہانہ ایک لاکھ روپے کماتا ہو سے رشتہ جوڑنا پسند کریں گے کہ ایک نجی ادارے میں پچاس ہزار کمانے والے تعلیم یافتہ شخص سے۔۔

اگر کسی کو برا لگا ہے تو لگتا رہے کیونکہ میں ان لوگوں کی طرح پیسے کو خدا نہیں سمجھتا ہوں۔

Check Also

Ye Dunya Magar Bohat Zalim Hai

By Nusrat Javed