Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Aziz
  4. Azadi Ke 77 Saal

Azadi Ke 77 Saal

آزادی کے 77 سال

میرے بچپن میں ہمارے گھر میں بہت سے ماہانہ رسائل آتے تھے۔ ان رسائل میں حکایت اور اردو ڈائجسٹ بھی تھے۔ 14 اگست کو ان ڈائجسٹس کے خاص آزادی نمبر ہوتے تھے جن میں ہندوستان سے لٹ لٹاکر آنے والے لوگوں کے انٹرویو اور سچی خونچکاں داستانیں ہوتی تھیں۔

ان میں جہاں زیادہ تر ہندؤں اور سکھوں کے مظالم کے قصے تھے وہاں کچھ ایسے ہندوں اور سکھوں کے قصے بھی تھے جنہوں نے ہمسائے ہونے کا حق ادا کیا اور بہت سے مسلمان گھرانوں کو سرحد پار پہنچایا۔ بہت سے ایسے بہادر لڑاکا مسلمانوں کے قصے بھی تھے جنہوں نے بلوائیوں کے جتھوں کے جتھے روک کر مسلمان خواتین کی عزت لٹنے سے بچائی۔ بہت سے باپ، بھائی اور خاوند اپنے گھرانوں کی عزتیں بچاتے ہوئے شہادت کے درجے پر فائز ہوئے۔ بہت سی مسلمان خواتین کو عزتیں لوٹنے کے بعد انہیں بے رحمی سے قتل کردیا گیا۔

وہ سب پڑھتے ہوئے بے اختیار آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے تھے۔ پھر محلے کا کوئی بزرگ بھی کوئی جذباتی کہانی سناتا تو ہمارے دل میں عجیب سا ولولہ اور اپنے وطن کی قدر کا احساس ہوتا تھا۔

پھر وقت گزرتا رہا، وہ نسل جو آگ و خون کے دریا عبور کرکے پاکستان میں داخل ہوئی تھی، آہستہ آہستہ اس دنیا سے کوچ کرنے لگی۔ دشمن کا اثرونفوذ آہستہ آہستہ بڑھنے لگا اور پھر بڑی آہستگی سے میٹھا زہر ہم سب کی رگوں میں اتارا جانے لگا۔ مثلا اس ملک میں انصاف نہیں، یہ ملک کرپٹ ترین ہے، یہ ملک امراء کا ملک ہے، اس ملک میں ملاوٹ بازی ہے وغیرہ وغیرہ اور بات ادھر ہی ختم نہ ہوئی تو ببانگ دہل پوری دنیا میں ڈنکا پیٹا جانے لگا کہ ہم بے ایمان ہیں، ہم لٹیرے ہیں بلا بلا۔۔ اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ہم دوسرے ممالک میں بھی ایک دوسرے کے گریبان پکڑ کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ ان ممالک نے ہمیں کسی سیاسی جماعت کا کارندہ نہیں بلکہ صرف پاکستانی کہنا ہے۔

پاکستان ہمارا گھر ہے اور ایک گھر میں بھائیوں میں جھگڑا ہو بھی جائے تو گھر کی بات باہر نہیں جانی چاہیے۔ اگر آپ متحد ہوکر کھڑے ہوں گے تو لوگ بھی عزت کریں گے وگرنہ ان کے نزدیک آپ کی قدر بالکل بھی نہ ہوگی۔

سب سے بڑے دکھ اور افسوس کی بات ہے لوگوں نے چھوٹے چھوٹے خدا بنا لیے ہیں اور دیوانہ وار ان کے اشاروں پر ناچنا شروع کردیا ہے۔ یہ خودساختہ خدا جب چاہیں پاکستان کو بدنام ترین بنا دیتے ہیں اور جب چاہیں مقدس ترین۔۔ ان سب کا پیٹ بھرتا رہے تو پاکستان زندہ آباد لیکن جب پیٹ پر لات پڑے تو پاکستان مردہ آباد۔۔

ہمارے بھولے لوگ بھی ان کی باتوں پر ایمان لے آتے ہیں اور جب کوئی کھلے عام یا ڈھکے چھپے الفاظ میں پاکستان کو برا کہہ رہاہوتا ہے تو یہ لوگ نادانستگی میں اسے سراہ رہے ہوتے ہیں۔

ان لوگوں کو آزادی کی قدروقیمت کا اندازہ ہی نہیں ہے کیونکہ نہ تو یہ ان حالات سے گزرے ہیں اور نہ ہی ان کو کچھ پتا ہے۔ ویسے بھی آج کل یہ فیشن بن گیا ہے کہ پاکستان کو برابھلا کہنے والوں کو ترقی پسند کہاجاتا ہے اور اس کا پاکستان کا دفاع کرنے والوں کو فرسودہ سوچ کے حامل لوگ کہا جاتا ہے۔ اگر پرانی نسل کے شہداء میں سے کوئی اس دور میں آجائے تو وہ ان لوگوں کے منہ توڑ دے اور انہیں بتائے کہ آزادی کیا ہے۔

عقل کے اندھوں اگر ایک بندہ ملاوٹ کررہا ہے تو کوئی دوسرا خالص چیز بھی تو بیچ رہا ہے، ایک ڈاکٹر اگر ہزاروں روپے فیس لے رہا ہے تو کوئی دوسرا ڈاکٹر فی سبیل اللہ مریضوں کو بھی دیکھ رہا ہے، اگر کولر کے ساتھ گلاس بندھا ہے تو وہ کولر بھی کسی نے اللہ کی راہ میں لگوارکھا ہے، اگر ایک بندہ لوٹ مار کررہا ہے تو دوسرا بندہ مفت میں دسترخوان کھولے کھانا بھی تو کھلا رہا ہے، اگر کوئی تعلیم کے نام پر لوٹ مار کررہا ہے تو کوئی دوسرا مفت میں تعلیم بھی تو دے رہا ہے۔

یہ ملک پاکستان ہمارا ہے اور اس کا دفاع ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ اگر یہاں اچھے لوگوں کے ساتھ ساتھ برے لوگ بھی ہیں تو اس میں پاکستان کو کوئی قصور نہیں ہے۔

خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو

یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو

پاکستان زندہ آباد

Check Also

Jadeed Maharton Ki Ahmiyat, Riwayati Taleem Se Aage

By Sheraz Ishfaq