Aik Crore Kunwari Khawateen
ایک کروڑ کنواری خواتین
کافی دنوں سے سوشل میڈیا پر ایک تصویر نے تھرتھلی ڈالی ہوئی ہے جس کا عنوان ہے "ملک میں 35 سال سے بڑی ایک کروڑ خواتین شادی کی منتظر"۔
سوشل میڈیا کے جگاوری دانشوروں نے اس کو لے کر رج کے دل کی بھڑاس نکالی۔ کہیں والدین کو موردِ الزام ٹھہرایا تو کہیں خواتین پر غصہ نکالا کہ امیر رشتوں کے انتظار میں غریبوں کو ٹھکراتی ہیں وغیرہ وغیرہ
کم از کم میرے نزدیک یہ انتہائی فضول اور بوگس اعدادوشمار ہیں۔ غضب خدا کا ایک کروڑ تعداد کم نہیں ہوتی ہے۔ آپ خود ہی اپنے خاندان یا محلے پڑوس میں نگاہ ڈالیں تو شائید سینکڑوں یا ہزاروں میں ایک نظر آجائے کم ازکم میرے جاننے والوں میں یا آس پڑوس یہ تعداد نا ہونے کے برابر ہے یا اگر ہے بھی تو ان میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل ہیں۔ ویسے بھی بالفرض جو ہیں اور وہ شادی نہیں کرنا چاہتے تو کیا یہ ضروری ہے کہ ہم انہیں اذیت دے کر رکھیں؟
میں تھوڑے بہت فلاحی کام کرنے کی کوشش کرتا ہوں جن میں بیواؤں کی بیٹیوں کی شادی بھی ہے۔ یقین کیجیے پچھلے کچھ ماہ میں چار پانچ یتیم لڑکیوں شادیاں کروائیں جو محض اٹھارہ سے بیس سال تک کی تھیں۔ اگر ایک بےسروسامان بیوہ کی بچی کی شادی کم عمری میں ہوسکتی ہے تو اللہ معاف کرے بقول ان اعدادوشمار کے ہر دوسری لڑکی پینتیس سال کی ہوچکی ہے تو ہمیں قدم قدم پر ان لڑکیوں سے واسطہ پڑنا چاہیے تھا۔
بقول ان دانشوروں کے ملک میں تمام فحاشی و عریانی کی جڑ شادی کا نہ ہونا ہے تو جو شادی شدہ مرد و خواتین شادی شدہ ہونے کے باوجود ناجائز تعلقات رکھتے ہیں تو ان میں کیاکسر باقی رہ گئی تھی؟
ایسے دانشور ایک دو مثالیں لے کر انہیں تمام معاشرے پرلاگو کرکے ڈگڈگی بجاتے ہوئے باہر نکل جاتے ہیں۔ اگر آپ نے ان چیزوں کے سدباب کے لیے کچھ کیا ہے تو سمجھ میں آتا ہے لیکن آپ نے صرف بولنا اور تنقید کرنا ہے تو برائے مہربانی تمام خواتین یا ان کے والدین کو ایک لاٹھی سے ہانکنا بند کردیں۔ جب آپ کسی کے لیے کچھ کر نہیں سکتے تو ان کے لیے تکلیف کا باعث بھی نہ بنیں۔ کوئی شوق سے تھوڑی اپنے لڑکے یا لڑکی کو گھر بٹھا کررکھتا ہے۔