Sahafi
صحافی
اگر آپ صحافی نہیں ہیں تو بھی جانتے ہوں گے کہ اخبارات کے صحافی دوسرے شعبہ ہائے زندگی کے کارکنوں سے کم معاوضہ پاتے ہیں۔ نیوز چینلوں کی آمد سے صرف ان صحافیوں کو فائدہ ہوا جنھوں نے چھلانگ لگالی۔ جو پرنٹ میڈیا سے وابستہ رہے، ان کا حال اب بھی پتلا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت صحافیوں کے ساتھ خصوصی سلوک کرتی ہے۔ ان کے لیے ویج بورڈ بنایا جاتا ہے جو ہر کچھ سال بعد مہنگائی کے حساب سے ان کے لیے تنخواہ بڑھانے کا مطالبہ کرتا ہے۔
افسوس کہ مالکان اخبارات اکثر اسے مسترد کرتے رہے ہیں۔ ہر دس پندرہ سال بعد کوئی سخی حکومت پریس کلب کے ارکان کو پلاٹ دینے کا اعلان کرتی ہے۔ اس میں کئی پیٹ بھرے صحافیوں کی بھی چاندی ہوجاتی ہے۔ لیکن یقین جانیں کہ بیشتر صحافی پلاٹ لینے کے بعد بھی کرائے کے مکانوں میں دھکے کھاتے رہتے ہیں کہ ان کے پاس اپنا مکان بنانے کے پیسے جمع نہیں ہوپاتے۔
یہ بات سمجھنے کی ہے اور خاص طور پر صحافیوں اور پڑھے لکھے افراد کے سمجھنے کی، کہ بعض شعبے خصوصی سلوک کے مستحق ہوتے ہیں۔ جب حکومت یہ فیصلہ کرتی ہے تو سبسڈی یعنی زرتلافی کا اعلان کرتی ہے تاکہ بعض شعبوں کے لوگوں کو کچھ سہولت مل جائے۔ اب تو فلم کا شعبہ تباہ ہوچکا ہے لیکن ماضی میں کچھ فلموں پر ٹیکس معاف کردیا جاتا تھا تاکہ سینما کا ٹکٹ سستا ہو اور زیادہ سے زیادہ لوگ انھیں دیکھ سکیں۔
یہ مطالبہ کرنا نادانی ہوگی کہ فلم پروڈیوسرز اور سینما مالکان کروڑوں روپے کماتے ہیں، اس لیے کسی فلم پر ٹیکس معاف نہیں ہونا چاہیے یا سبسڈی نہیں ملنی چاہیے۔ بزنس اور مارکیٹ کیسے چلتی ہے، اس کا مکمل ادراک کیے بغیر مطالبات کرنا آسان ہے لیکن نادانی ہے۔
اگر میں بات کسی حد تک پہنچا سکا ہوں تو اس معاملے کو کتابیں چھاپنے اور فروخت کرنے والوں پر رکھ کر دیکھیں۔ کیا پاکستان میں یہ شعبہ کامیاب ہے؟ کتابیں لکھنے والے کیوں خوشحال نہیں ہوپاتے؟ پبلشر کمائے گا تو مصنف کو اچھا معاوضہ دے گا۔ آپ دن رات پبلشر کو گالیاں دیتے رہیں اور کتاب فروخت کرنے والے کی گردن پکڑتے رہیں گے تو ان شا اللہ یہ نوبت کبھی نہیں آئے گی۔
میں پاکستان میں تھا تب بھی بڑی تعداد میں کتابیں خریدتا تھا۔ جی چاہتا ہے کسی دن آپ کو اپنے امیزون اکاونٹ کے ان دنوں کی آرکائیو دکھاوں۔ مجھے کچھ کتابیں برطانیہ اور امریکا سے منگوانی پڑتی تھیں کیونکہ کراچی میں پیراماونٹ اور لبرٹی بکس، لاہور میں ریڈنگز اور اسلام آباد میں سعید بک بینک کے پاس بھی نہیں ملتی تھیں۔ لیکن بہت سی مل بھی جاتی تھیں۔ اور یقین کریں، میں ان کی قیمت دیکھ کر حیران رہ جاتا تھا۔ ڈاک خرچ چھوڑ بھی دیں تو صرف کتاب کی قیمت ڈالرز میں زیادہ ہوتی تھی لیکن پاکستانی بک سیلرز کے پاس اس سے کم میں، بعض اوقات نصف قیمت میں مل جاتی تھی۔
پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ کوئی پبلشر ای بکس پیش نہیں کرتا اور لوگ اس کے عادی بھی نہیں۔ جو عادی ہیں، انھیں پی ڈی ایف مل جاتی ہیں۔ میں خود دوستوں میں بانٹتا ہوں۔ میں نہ بھی بانٹوں تو بیشتر کتابیں انٹرنیٹ پر مفت موجود ہیں۔ اچھا لگے یا برا لگے، قانونی غیر قانونی کی جتنی مرضی بحث کرلیں، پی ڈی ایف بکس مفت ہر جگہ دستیاب ہیں اور اب ان کا کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ اس معاملے نے بھی پبلشرز اور کتاب فروشوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ پائریٹڈ بکس کا معاملہ الگ ہے۔
جو لوگ بک شاپس پر جاتے رہتے ہیں، انھیں پتا ہوتا ہے کہ اصلی کتاب کہاں ملے گی اور پائریٹڈ کہاں سے، مہنگی کون دے گا اور زیادہ ڈسکاونٹ کون۔ کتاب کہاں واپس قبول کرلی جائے گی اور کون واپس نہیں لے گا۔ جو بھولے بھٹکے کبھی بک شاپ میں گھسا ہو اور پھر کسی دوسری دکان پر سستی کتاب دیکھ کر مچل جائے، مجھے لگتا ہے کہ وہ پہلی بار وہاں گیا ہوگا۔
پاکستان میں کتابیں خریدنا اب عیاشی سے کم نہیں۔ لوگ مکان کا کرایہ نہیں دے پارہے۔ بجلی کا بل ادا نہیں کرپارہے۔ مہنگائی نے زندگی عذاب کی ہوئی ہے۔ پندرہ سو دو ہزار کی عام کتاب اب عام آدمی نہیں خرید رہا۔ وہی لوگ خریدتے ہیں جن کی جیب میں کچھ اضافی پیسے ہیں۔
معلوم نہیں مہنگی کتاب پر شور مچانے والے مہنگا پزا اور مہنگا جوتا خریدنے پر بھی شور مچاتے ہیں یا نہیں۔ کل کلاں کو میکڈونلڈ پہنچ کر یہ تقاضا نہ کرنے لگ جائیں کہ سامنے انڈے والا بن کباب تو سستا مل رہا ہے، تم لوگ اپنا برگر کیوں مہنگا بیچ رہے ہو۔ واپس کرو میرے پیسے!