Sozish Daroon Baroon Mee Ayad
سوزش دروں بروں می آید
کہتے ہیں کہ حصول اقتدار کی سعی کرنا ہر ایک کا حق ہوتا ہے۔ ویسے یہ حق ہے عجیب سا۔ پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جنگ اور محبت کی طرح سیاست میں بھی ہر حربہ اختیار کرنا جائز ہے۔ یہ منطق بھی کچھ عجیب و غریب ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو جنگ کے اصول وضع نہ ہوتے، کنونشن منظور نہ کیے جاتے، محبت کے سچا اور جھوٹا ہونے کے قصّے نہ بنتے۔ مستزاد یہ کہ سیاست کسی بھی طرح جنگ یا محبت سے مماثل نہیں۔ جنگ میں مخالفت مدمقابل یعنی دشمن کی کی جاتی ہے۔ محبت میں مخالفت وہ کرتے ہیں جو محبت کرنے کے عمل کے خلاف ہوتے ہیں، محبت کرنے والے اگر کچھ کر سکتے ہیں تو مزاحمت کرتے ہیں۔ مزاحمتی عمل میں چکمہ دینا، بھاگ جانا، جھوٹ بول کے بچ نکلنے کی کوشش کرنا یہ سب کسی حکمت عملی کے تحت نہیں بلکہ مجبوری کے باعث کیا جاتا ہے اور وہ بھی ایسے معاشروں میں جہاں ابھی تک انسانی تعلقات کو سماجی تعلقات کی بجائے غلط طور پر یا تو الوہی تعلقات سمجھا جاتا ہے یا پھر شیطانی تعلقات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ رہی سیاست تو ایسے معاشروں میں جہاں سیاست خلق خدا کی بھلائی کے کام سے زیادہ ذاتی مفادات، دولت، شہرت، وقار وغیرہ اینٹھنے اور سمیٹنے پر مبنی ہوتی ہے، خود کو ہر طرح کے ہتھکنڈے سے داغدار کر لیتی ہے۔
احتجاج کرنا واقعی سبھی انسانوں کا حق ہوتا ہے، انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی حوالے سے بھی تاہم احتجاج اگر بروقت نہ ہو تو وہ احتجاج نہیں رہتا بلکہ بے وقت کی راگنی بن جاتا ہے۔ ایک بات تو طے ہے کہ سیاست دان بہر حال احمق نہیں ہوتے۔ بے وقت کا احتجاج بھی وہ تب کرتے ہیں جب انہیں لگے کہ اس بے وقت کی راگنی کے سروں کی تال میل حال کے بحرانی مسائل کے ساتھ ہم آہنگ کی جا سکتی ہے۔
ایک زمانہ ہوا کرتا تھا جب ہر ملک کے حالات اپنے اپنے ہوا کرتے تھے۔ کہیں خون بہہ رہا ہوتا تھا، کہیں ہن برس رہا ہوتا تھا لیکن کسی کو کسی کے بارے میں خبر تب ہی ملا کرتی تھی جب کوئی ابن بطوطہ، کوئی تاجر یا کوئی بے خانماں مہاجر آ کرکے خبر دیا کرتا تھا۔ عموماََ ایسا بھی ہوتا تھا کہ خبر پہنچنے تک خبر بے خبر ہو کر رہ جایا کرتی تھی۔ زمانے نے ترقی کی اخبارات کا زمانہ آ گیا۔ خبر لینا اور خبر دینا ایک پیشہ بن گیا۔ بات کسی حد تک تیزی کے ساتھ لیکن ویسے پہنچنے لگی جیسے پہنچائی جانا مقصود ہوتی تھی۔ اب تو خبر کو ویسے ہی پر لگ چکے ہیں۔ الیکٹرونک میڈیا اور سوشل سیٹس کے عام ہونے سے خبر کسی ایک جگہ کی خبر نہیں رہی۔ ہر خبر کا تعلق دوسرے، تیسرے، چوتھے بلکہ بہت سے ملکوں کے حالات سے بندھنے لگا ہے۔ اگر ہندوستان میں عام آدمی پارٹی میں لوگ دلچسپی لینے لگیں گے، تو پاکستان میں تحریک انصاف ویسی ہی نفیری پھونکنے لگ جاتی ہے جیسے ہندوستان میں پھونکی جا رہی ہو۔ افغانستان میں انتخابات میں نتیجہ کچھ زیادہ جمہوری ہونے لگے تو ایران کی حزب اختلاف میں ملاؤں کو نیچا دکھانے کی امید بندھنے لگ جاتی ہے۔
صرف ایسا ہی نہیں کہ ہمسایہ ملکوں کا ایک دوسرے کے ہاں کے حالات بالخصوص سیاسی حالت سے تعلق ہوتا ہے بلکہ دور پار کے بااثر ملک بھی کسی مخصوص ملک، جس کے ساتھ اس کے جغرافیائی سیاسی مفاد بندھے ہوں، میں ان قوتوں اور تحریکوں کی پہلے بالواسطہ اور جب لوہا گم ہو جائے تو بلاواسطہ معاونت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ ایسے میں یہ لگنے لگا ہے کہ اقتدار کے حصول کی خاطر کسی کی معاونت قبول کرنا بھی ہر پارٹی یا تحریک کا حق ہوتا ہے۔
ہم بھلا الزام لگانے والے کون ہوتے ہیں؟ رنگین انقلابات کی کہانیاں ہوں یا بہار عرب کے بعد کے قصّے، شام کی بربادی کے حقائق ہوں یا یوکرین میں آویزش کی داستانیں، واشنگٹن سے الریاض، برسلز سے انقرہ اور ماسکو سے لے کر بیجنگ کی تلملاہٹیں، چغلی کھاتی ہیں کہ معاملہ کسی ایک ملک یا کسی ایک پارٹی کا اب رہ نہیں گیا۔ اور تو اور کسی معروف صحافی پہ کیا جانے والا بظاہر قاتلانہ حملہ بھی اب تو چاہتے نہ چاہتے ہوئے ایک طویل دورانیے کے منظر نامے کا حصہ لگنے لگا ہے۔ کل کے سیاسی حریف آج کے سیاسی حلیف بنتے دکھائی دینے لگے ہیں۔
جن کے وقار کو ایک بار پھر ان کے اپنے ہی کسی کی حرکتوں نے مائل بہ زوال کر دیا تھا وہ اب پانچ سال کا غیر سیاسی سانس لے کر اپنا وقار اس حد تک بحال کر چکے ہیں کہ کہاں شہر میں وردی پہن کر نہ نکلنے کی ہدایات دی جاتی تھیں اور کہاں دھڑے دھڑے ان کے ھق میں جلوس نکالنے لگے ہیں۔ جس کو دیکھو وہ عسکری خفیہ ایجنسی کے گن گاتا دکھائی دینے لگا ہے۔ رہ کر ایک بیچاری سپریم کورٹ ہی بچی ہے جو حکومت سے یہ پوچھ رہی ہے کہ اگر ایک برسرکار فوجی "افسر" کے خلاف مقدمہ بنے تو اس کا مقدمہ کون سنے گا سول عدالتیں یا فوجی ٹریبیونل؟ لوگ غائب کیے جانے کا معاملہ یا تو دب گیا ہے یا خفیہ ایجنسی کے سربراہ کی تصویر کو آٹھ گھنٹے الزام لگا کے دکھائے جانے سے لوگوں کو مزید غائب کیا جانا روک دیا گیا ہے۔ بلکل بھی خارج از امکان نہیں کہ ماضی میں لوگوں کے غیاب میں انتہا پسند قوم پرست گروہوں کا ہاتھ بھی ہو سکتا تھا لیکن پچھلے ڈیڑھ دو ماہ سے بلوچ قوم پرستوں کو سانپ کیوں سونگھ گیا ہے جبکہ نہ تو ڈاکٹر اللہ نذر کی تصاویر فلیش کی گئی تھیں اور نہ ہی مبینہ طور پر براہمدغ بگٹی یا حرب یار مری کی۔
یہ تو جو کچھ گذشتہ ایک ڈیڑھ ماہ سے ہو رہا ہے یا مزید چند ماہ کے بعد چودہ اگست کے بعد شروع ہوگا وہ اندرونی سوزش ہے جو باہر آ رہی ہے چنانچہ یہی کہنا درست ہے کہ "سوزش دروں برون می آید"۔