Tuesday, 23 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mojahid Mirza
  4. Moscow Se Makka (7)

Moscow Se Makka (7)

ماسکو سے مکہ (7)

اب ہم کوہ احد کی جانب جا رہے تھے۔ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ کوہ احد ایک جانب ہے جس کی تلہٹی میں دکانیں تھیں۔ سڑک کے اس پار خاصی دور اور بھی گاڑیاں رکی ہوئی تھیں۔ لوگ آنکھوں پہ ہاتھ دھرے کسی جانب دیکھ رہے تھے۔

یہ ایک ٹیلہ تھا جس پہ لوگ چڑھے ہوئے تھی۔ گرمی بہت زیادہ تھی۔ ایک دیوار پر جنگ احد کی نقشہ کشی ہوئی ہوئی تھی۔ عثمان نے کسی ماہر حرب کی طرح جنگ احد کا نقشہ کھینچنا شروع کر دیا تھا۔ میں دھوپ کی حدت سے بچنے کی خاطر اسی دیوار کے سائے میں کچھ خواتین کے ہمراہ کھڑا ہوگیا تھا لیکن عثمان کے انداز و بیان نے مجبور کیا تھا کہ میں بھی اس جنگ کا منظر سمجھوں، میں سامنے کی جانب آ گیا تھا۔

جو ٹیلہ دکھائی دے رہا تھا، اصل میں وہی جگہ تھی جہاں حضور اکرم کے دانت شہید ہوئے تھے اور زخم آئے تھے، جس پر کفار مکہ نے مشہور کر دیا تھا کہ وہ اس دنیا میں نہیں رہے اور صحابہ کے پاؤں لڑکھڑا گئے تھے۔ رہی سہی کسر منافقین نے میدان چھوڑ کر پوری کر دی تھی۔ یہ سوچنا کہ کفار مکہ کہاں سے سفر کرکے کہاں لڑنے آئے تھے اسلام کے ایک اہم باب کو آشکار کر رہا تھا کہ کس طرح لوگ ایک تحریک کے فروغ پانے اور حق کی آواز کے مقبول ہونے سے خائف تھے کہ اس کو تمام کرنا چاہتے تھے۔

اس امر سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ تھی کہ کس طرح ایسے حالات میں جانباز صحابہ کرام کوہ احد کی کگروں پر چل کر زخموں سے چور محمد ﷺ کو ساتھ لے کر دشمنوں سے چھپے ہونگے۔ تاہم سب جانتے ہیں کہ اس جنگ میں بہت زیادہ صحابہ شہید ہو گئے تھے، جن میں حضور اکرم کے چچا اور دوست حضرت حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی شامل تھے جن کا جگر ابوسفیان کی بیوی ہندہ نے چبایا تھا۔ جسے آپ نے فتح مکہ کے بعد ناگواری کے ساتھ لیکن معاف فرما دیا تھا۔

جنگ احد کے شہداء کا قبرستان ہمارے سامنے تھا لیکن اس کی دیواریں اونچی تھیں۔ ہم میلے کی مانند لگی دکانوں کو عبور کرتے ہوئے قبرستان کی دیوار کے سائے میں اس ٹیلے تک پہنچے تھے۔ عثمان نے ٹیلے پر چڑھتے ہوئے کہا تھا کہ یہ پتھر عام پتھر ہیں انہیں متبرک پتھر سمجھ کر اٹھانے اور ساتھ لے جانے کی ضرورت نہیں ہے مگر دو ایک افراد نے اس کا کہا ان سنا کر دیا تھا اور پتھر اٹھانے لگے تھے۔

یہ بات تو سمجھ آتی تھی لیکن عثمان نے یہ بھی کہا تھا کہ جس کسی نے بھی تصویریں اتاری ہیں یا ویڈیو بنائی ہے وہ ازراہ خدا تلف کر دے کیونکہ میں قیامت کے روز اللہ کو جوابدہی نہیں کر سکوں گا۔ اس کی مجھے سمجھ نہیں آئی تھی تاہم میں نے نہ تو وہاں کوئی تصویر کھینچی اور نہ ہی اس سے وضاحت طلب کی۔ البتہ اسے اس کے انداز گفتگو اور علم پر داد ضرور دی تھی۔

میں لوگوں کو ٹیلے پہ ہی چھوڑ کر قبرستان کے سامنے پہنچ گیا تھا۔ ایک بغلی دروازے سے قبرستان کی جالی تک پہنچنا ممکن تھا وہاں پہنچ کر میں نے فاتحہ پڑھی تھی اور حضرت حمزہ کو اپنا سلام پیش کیا تھا۔ پھر قبرستان کی دیوار کے سائے کی پناہ لیتا ہوا وہاں پہنچا تھا جہاں بس کھڑی تھی۔

بس میں کوئی نہیں تھا۔ میں ایک ہسپتال کے دروازے کی سیڑھیوں پہ بیٹھ کر لوگوں کے آنے کا انتظار کرنے لگا تھا۔ ہسپتال میں پانی کا کولر لگا ہوا تھا اور دروازہ کھلا تھا، وہاں سے جا کر ٹھنڈا پانی پیا تھا۔ لوگ آنے لگے تھے، ان کو بھی پانی پینے کی راہ دکھا دی تھی لیکن جب زیادہ لوگ اندر جانے لگے تو اہلکار نے آ کر دروازہ بند کر دیا تھا۔ ہم ہوٹل لوٹ آئے تھے۔

آج جمعہ تھا۔ نماز جمعہ کے بعد میں مسجد نبوی میں اسی شو ریک کے پاس گیا تھا جہاں صبح چپل گم ہوئی تھی۔ جو بھی شریف آدمی غلطی سے لے گیا تھا وہ اسے واپس وہیں دھر گیا تھا اور اس سے مشابہ اپنی چپل لے گیا تھا۔ چپل ہاتھوں میں تھامے باہر نکلا تھا۔ ایک دکاندار سے پلاسٹک بیگ لے کر چپل اس میں ڈالی تھی اور اپنے واحد شناسا پاکستانی ریستوران میں کھانا کھانے چلا گیا تھا۔

ہوٹل لوٹا تو معلوم ہوا کہ نماز عصر پڑھنے کے بعد ہمیں مکہ کے لیے روانہ ہونا ہے۔ کمرے میں جا کر سامان باندھا تھا، کچھ استراحت کی تھی اور سامان لے کر ہوٹل "بدرالعنبریہ" سے نکلنے کے لیے اس کی لابی میں پہنچ گیا تھا۔ ہمارے لیے دو بسیں آئی تھیں۔ میں پہلی بس میں سوار ہوگیا تھا، جس میں عورتیں پہلے ہی بیٹھ چکی تھیں۔

لوگ آہستہ آہستہ آ رہے تھے۔ بالآخر مغرب سے کچھ پہلے بس روانہ ہوئی تھی۔ میرا خیال تھا کہ میقات کوئی بہت زیادہ دور ہے۔ احرام والا تھیلا میں اپنے ساتھ بس کے اندر ہی لے گیا تھا۔ لیکن میقات تو آدھے گھنٹے بعد ہی آ گیا تھا۔

جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ میری طبیعت خراب تھی، میں چونکہ صبح نہا چکا تھا۔ ڈر تھا کہ دوسری بار نہانے اور سفر کی وجہ سے کہیں بخار ہی نہ ہو جائے۔ میں نے "مولبی صاحب" یعنی رشیت حضرت سے پوچھا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ کوئی بات نہیں تم یونہی احرام باندھ لو۔

ایک جانب دیکھا تو "دورہ میات رجال" لکھا ہوا تھا یعنی مردوں کے لیے باتھ رومز۔ اس کے اندر بیسیوں غسل خانے تھے۔ میں نے ایک غسل خانے میں گھس کر احرام باندھ لیا تھا۔ نماز مغرب و نوافل پڑھنے کے لیے اس حصے کے دوسری جانب سے مسجد میں داخل ہونے کی خاطر نکلا تھا۔ نماز اور نفلوں سے فارغ ہوا تو ایک جانب کو بس کی طرف جانے کے لیے نکل گیا تھا۔

مگر یہ تو وہ جگہ ہی نہیں تھی جہاں ہماری بس رکی تھی۔ میں گم ہو چکا تھا، بہت تلاش کیا بالآخر ایک سرکاری بوتھ میں داخل ہوا جہاں ایک تن و توش والا عرب لڑکا بیٹھا ہوا تھا۔ اسے اپنی بپتا سنائی تو وہ بوتھ بند کرکے میرے ساتھ ہو لیا تھا اور ایک بالکل ہی دوسری جانب لے گیا تھا، جہاں مجھے کچھ سمجھ آ گئی تھی اور میں نے اس کا شکریہ ادا کیا تھا۔

ابھی لوگ بس سے باہر کھڑے چائے پی رہے تھے۔ میں نے چائے پینا مناسب جانا تھا۔ بس چل پڑی تھی۔ کوئی دو ڈھائی گھنٹے بعد ہم ایک جگہ پہنچے تھے جہاں لوگ آرام کرنے اور چائے پینے نکلتے ہیں۔ مجھے ایسے لگا تھا جیسے گھوٹکی سندھ کا کوئی مقام ہو جہاں تھوڑی سی ترقی ہو چکی ہو، وہاں تقریباََ چالیس منٹ رکے تھے کیونکہ بسوں کے ڈرائیور وہاں کھانا کھاتے ہیں۔

بس پھر روانہ ہوگئی تھی۔ ہم رات گئے مکہ میں داخل ہوئے تھے۔ مکہ مجھے فوری طور پر اچھا لگا تھا۔ مجھے بڑے شہر ویسے ہی اچھے لگتے ہیں۔ مکہ ایک بڑا شہر تھا۔ جب ایک جگہ پہنچے تو جیپ میں بیٹھ کرآیا ہوا کوئی شخص رشیت حضرت سے ملا تھا۔ بس واپس ہو لی تھی۔

معلوم ہوا کہ اپنے آنے کی اطلاع متعلقہ ادارے کو درج کروانی ہے۔ گلیوں میں بس گھماتے ایک جگہ پہنچے تھے جہاں مکہ خاصا غلیظ اور کوڑے کرکٹ سے اٹا ہوا تھا۔ ایک بارہ تیرہ سال کے بچے نے بس میں داخل ہو کر سب کو کھجوروں کے چھوٹے چھوٹے پیکٹ اور پانی تحفہ کیے تھے۔ پھر کوئی رات ڈیڑھ بجے کے قریب ہم ایک ہوٹل پہنچے تھے۔ یہ ہوٹل مدینے کے ہوٹل سے بھی گیا گزرا تھا۔

مدینہ منورہ میں تاریخی مقامات کی سیر کرواتے ہوئے غالباََ ہمارے "سفر حج" کی انتظامیہ نے ہی عثمان کے منہ سے یہ ایک سے زیادہ بار کہلوایا تھا کہ مدینہ لایا جانا مناسک حج کا حصہ نہیں ہے۔ یہ سفری ایجنسی "سلوٹس" کی مہربانی ہے کہ اس نے آپ لوگوں کو مدینہ دیکھنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ تب میں یہ سمجھا تھا کہ "سلوٹس" اپنی نااہلی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔ حج کروانے والی کوئی بھی سفری کمپنی عازمین کو مدینہ لے جائے بغیر نہیں رہنے دیتی۔ مکہ پہنچ کر اس کمپنی کی نااہلی پر مجھ سے پہلے باقی لوگوں نے اور سب سے پہلے خواتین عازمین نے واویلا کرنا شروع کیا تھا۔

اس ہوٹل کا نام تھا سلام بلازہ (پلازہ)۔ اندر داخل ہو کر جب کمرے دینے کی باری آئی تو مولانا رشید سے ایک عرب لیکن روسی بولنے والے نے کہا کہ پہلے چار چار عورتوں کا گروپ بنا لیں۔ اب عورتوں میں گروپ بنانے کے لیے چائیں مائیں شروع ہوگئی تھی۔ میں نے سوچا تھا کہ لو جی تین افراد سے اب چار ہو گئے۔ جب عورتوں کا معاملہ بمشکل تمام ہوا تو کسی نے کہا کہ ہم چار آدمی ہیں۔ تو روسی بولنے والے عرب نے کہا تھا کہ چار والا کمرہ نہیں بچا چھ اور سات والے ہیں۔ میرا دل ہول گیا تھا۔

رشیت حضرت کے ہاتھ میں کاغذ پنسل تھے اور وہ لوگوں کے سوالوں سے جھنجھلائے ہوئے تھے۔ روسی بولنے والا عرب شخص پریشان نگاہوں سے کبھی گروپ بنانے کی خاطر جھوجھتے ہوئے لوگوں کو دیکھتا تھا اور کبھی چابیاں دینے والے عرب نوجوان محمد سے تیز زبان میں گفتگو کرتا تھا۔ پہلے چار چار افراد کے نام لکھوانے شروع کیے گئے تھے۔

ابھی دو بار ہی ایسے نام لکھے گئے تھے کہ اوپر کی منزلوں سے عورتیں آ کر چلانے لگی تھیں۔ کوئی اپنی مرض کا ذکر کرکے زیادہ لوگوں کے ہونے کی شکایت کر رہی تھی اور کوئی بتا رہی تھی کہ غسل خانہ ہے ہی نہیں تو کوئی کہہ رہی تھی کہ غسل خانہ تو ہے لیکن 18 افراد کے لیے ایک۔ رشیت حضرت خود بھی پریشان دکھائی دینے لگے تھے۔

داؤد انکل کا نام کسی اور کے ساتھ لکھا گیا تھا۔ جمشید تو ویسے ہی میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تھے۔ آخر میں کہا گیا کہ دو افراد رہ گئے ہیں۔ میرے ساتھ ایک اور معمر اور خاموش طبیعت داٍغستانی شخص ماگومید (محمد) کا نام لکھ دیا گیا تھا۔ میں دل ہی دل میں خوش ہوا تھا کہ اتفاق سے کوئی دو افراد کا کمرہ بچ رہا تھا وہ ہمیں مل گیا ہے۔

Check Also

Anna Hoyiaan

By Tauseef Rehmat