Sunday, 21 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mojahid Mirza
  4. Moscow Se Makka (6)

Moscow Se Makka (6)

ماسکو سے مکہ (6)

ظہر کی نماز کے بعد جب مسجد کے ایک اندرونی گیٹ سے میں نکلا تو ایک اور منظر دیکھنے کو ملا تھا۔ مسجد کے احاطے میں چلتی ہوئی ایک الیکٹرک موبائل پہ کوئی سرکاری شخصیت سوار تھی جس کے ساتھ اور پیچھے تین پولیس والے بیٹھے تھے۔ موبائل کے ساتھ ساتھ دونوں جانب تین تین سپاہی بھاگ رہے تھے۔ اس موبائل کے آگے پولیس والوں کی دو ایسی ہی موبائل تھیں اور پیچھے پولیس اور عمال سے بھری آٹھ دس مزید ایسی الیکٹرک کاریں تھیں۔ روضہ رسول ﷺ کی حرمت کا یہ نمونہ تھا کہ حاکم شہر اس کے احاطے میں پیدل نہیں چل سکتا تھا۔ حکام کے اپنے ہی انداز ہوتے ہیں چاہے وہ کہیں کے ہی کیوں نہ ہوں۔

ہمیں اگلے روز مکہ مکرمہ کے لیے روانہ ہونا تھا۔ سوچا کہ آج سرور کونین کو الوداعی سلام بھی کر لیا جائے۔ عشاء کی نماز کے بعد عاشقان رسول پاک و صحابہ کرام کی سرکتی ہوئی لائن میں کھڑے ہو کر "حجّی! آگے! چلو!" سنتے ہوئے اس خواہش کے ساتھ کہ اللہ پھر اس مقام پر لائے نبی آخرالزمان، خلیفہ اول و دوئم کو الوداعی سلام کیے تھے۔ باہر نکلنے کی بجائے آج دل میں ٹھان لی تھی کہ ریاض الجنہ میں نفل ادا کرنے ہیں۔ ایک گروہ کو پولیس والے نکال رہے تھے۔ دوسری جانب سے قنات کھلنے کا انتظار تھا۔ میں دوسری لائن میں کھڑا ہوگیا تھا۔ جب علاقہ خالی ہوگیا اور صفائی ہونے لگی تو قنات کے دوسری طرف ایک شیخ نے کھڑے ہو کر صبر اور نظم کی تلقین کی تھی۔ عربی، اردو، فارسی، ترکی سبھی زبانوں میں کہا تھا کہ آرام سے داخل ہوں۔ مجھے عین ریاض الجنہ میں جگہ مل گئی تھی۔ میں دو نفل ہی پڑھتا لیکن لوگ نفل پڑھنے میں مصروف تھے۔ نکلنے کی جگہ نہیں تھی، اس لیے میں نے مزید دو نفل پڑھ لیے تھے۔ ربنا آتنا فی الدنیا حسنتا و فی الآخرہ حسنتا سے مجمل بھلا کوئی دعا ہوگی، جو پڑھتا رہا اور نکل گیا۔

آج رات صافی صاحب بھی آرام سے آ کر سو گئے تھے۔ صبح اکٹھے نماز پڑھنے گئے تھے۔ واپس نکلنے لگے تو میری چپل غائب تھی۔ میں چپل ڈھونڈتا رہا اور جمشید صاحب ایک بار پھر غائب ہو گئے۔ کوئی آدھا گھنٹہ چپل تلاش کیے تھے۔ اندازہ یہی لگایا تھا کہ میرے چپلوں سے ملتے جلتے ایک چپل بہت دیر سے اسی ریک میں پڑے تھے، جہاں میرے چپل تھے چنانچہ ہو نہ ہو کوئی صاحب غلط فہمی سے میرے چپل لے گئے ہیں لیکن اگر میں یہ چپل لے کر چلتا بنوں تو ممکن ہے کہ میرا اندازہ غلط ہو اور کوئی دوسرا میری طرح تنگ ہو چنانچہ ننگے پیر ہی مسجد کے احاطے میں اور احاطے سے باہر گلی میں چلا تھا۔

صبح صبح بھلا چپل کہاں ملتے لیکن سڑک پر پہنچ کر برقعہ پوش ریڑھی بان سے پندرہ ریال کے جیسے بھی چپل ملے خرید لیے تھے جنہیں پہن کر ہوٹل پہنچا تھا۔ کچھ دیر بعد صافی صاحب بھی مل گئے تھے۔ پراٹھوں کا ناشتہ کرنے گئے تھے لیکن صافی صاحب سالن نہیں لے رہے تھے۔ ان کو ڈر تھا کہ کہیں پیٹ خراب نہ ہو جائے۔ واپسی پر اتفاقاََ معلوم ہوا تھا کہ ایک بس آئی ہوئی ہے جو قابل دید مقامات دکھانے لے جائے گی۔ یہ تھا ہمارے مولوی رشید یعنی رشیت حضرت کا انتظام کہ کسی کو معلوم نہیں ہوتا تھا کہ کیا کرنا ہے اور کہاں جانا ہے؟

جب سب بس میں بیٹھ چکے تو ژوب (لمبا عربی کرتہ) زیب تن کیے اور شکوک کو ابھارنے والی اپنی مسکراہٹ چہرے پہ سجائے رشیت حضرت بھی بس میں سوار ہوئے تھے۔ انہوں نے بتایا تھا کہ "ہمارا" مدینہ میں طالب علم عثمان اس سفر میں آپ کا گائیڈ ہوگا۔ عثمان دھان پان سا چھدری ہلکی داڑھی والا تاتار لڑکا تھا جس کے کان سامنے کی جانب اور بڑے بڑے تھے لیکن جب اس نے سفر بارے تذکرے کی ابتدا کی تو فوراََ اس کی ذہانت اور علمیت آشکار ہونے لگی تھی۔

اس نے بتایا تھا کہ ہماری پہلی منزل مسجد قباء ہوگی۔ محمد ﷺ کے دور میں تو یقیناََ یہ مسجد چھوٹی سی ہی ہوگی لیکن اب یہ مسجد خاصی وسیع و عریض اور دیدہ زیب ہے۔ اس کی بناوٹ بڑی سادہ سی ہے یعنی وہی ایک گنبد اور چار بلند مینار لیکن پھر بھی یہ پرشکوہ لگتی ہے۔ یہ کہتے ہوئے مسجد یا اس سے وابستہ حقائق سے کسی قسم کی کسی عقیدت کا اظہار مراد نہیں ہے بلکہ مسجد فی الواقعی باہر سے اور اندر داخل ہو کر دیکھنے، دونوں ہی طرح سے متاثّر کرتی ہے۔ چونکہ جلدی میں نکلے تھے چنانچہ با وضو نہیں تھے۔ اس لیے مسجد سے نیچے (مسجد زمین سے اچھی خاصی اونچی ہے) وضوگاہ میں جا کر وضو کیا تھا۔

وضوگاہ سے مسجد میں داخل ہونے کے دروازے تک پہنچنے کی خاطر سیڑھیاں چڑھنے سے پہلے راستے میں بچے ساتھ لیے یا بچہ سنبھالتے ہوئے کئی برقع پوش بھکاری عورتیں دیکھنے میں آئی تھیں۔ باثروت ملکوں میں بے مایہ لوگوں کو دیکھ کر زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔ بہر حال سیڑھیاں چڑھ کر دروازے میں داخل ہوا تھا۔ چونکہ صبح چپل گم کر چکا تھا چنانچہ اب چپل سے متعلق محتاط تھا اور اسے واضح طور پر دکھائی دینے والی جگہ پہ رکھا تھا۔ اندر سے مسجد کی تصویر بنانا چاہتا تھا لیکن موبائل فون کا کیمرہ جم گیا تھا۔ فون بند کرکے دوبارہ چالو کیا اس میں بھی دو تین منٹ لگے تھے لیکن عارضی نقص موجود رہا۔

چونکہ عثمان نے ہمیں مسجد دیکھنے اور دو نفل پڑھنے کی خاطر پندرہ منٹ دیے تھے اس لیے بہتر جانا تھا کہ نفل پڑھ لی جائیں۔ بہر حال کسی نہ کسی طرح میں مسجد کی تصاویر لینے میں کامیاب رہا تھا۔ تصویریں یادگار کے طور پر نہیں بلکہ اس لیے بناتا تھا کہ انہیں فیس بک پہ جاری کر سکوں تاکہ لوگ میرے ساتھ حج میں شریک رہیں۔ گھٹیا ہوٹل کی لابی میں البتہ وائی فائی کی سہولت موجود تھی جہاں سے موبائل پہ ہی انٹرنیٹ آن کرکے میں لوگوں کو بصری طور پر ہی سہی اپنے ساتھ شامل کر لیتا تھا اور مختصراََ تبصرہ یا روداد بھی لکھ دیتا تھا۔ لوگوں کے انگریزی یا رومن اردو میں لکھے تبصرے تو پڑھے جاتے تھے لیکن موبائل میں اردو پڑھنے کی سہولت نہیں تھی۔

مسجد قباء سے نکلے تو ہمارا اگلا ہدف "مسجد قبلتین" تھا۔ اس مسجد کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہیں نماز پڑھاتے ہوئے رکوع کے عالم میں پیغمبر ﷺ نے اپنا رخ مبارک بیت المقدس سے موڑ کر کعبے کی جانب کیا تھا۔ مقتدیان کرام بھی اسی طرح مڑ گئے تھے۔ چونکہ اس میں نماز بیک وقت دو قبلہ جات کی جانب منہ کرکے پڑھی گئی تھی اس لیے اسے مسجد قبلتین کہتے ہیں لیکن ہمارے مولانا رشیت کا کہنا یہ تھا کہ اس مسجد میں حضور کے نماز پڑھنے کی کوئی روایت نہیں ہے اس لیے ضروری نہیں کہ یہاں نوافل پڑھے جائیں، ہاں کسی بھی مسجد میں داخل ہونے کی نماز تہیۃ المسجد پڑھ لی جائے تو اچھا ہے۔

میں نے بحث کرنا مناسب نہیں جانا تھا۔ نوافل پڑھے تھے ایک دو تصویریں بنائی تھیں اور بس کی جانب چل دیا تھا۔ مسجد کی جانب آتے ہوئے ہمیں بس میں بیٹھے بیٹھے "مسجد جمعہ" بھی دکھائی گئی تھی لیکن اس تک لے جایا نہیں گیا تھا۔ شاید وہ راستے سے کچھ ہٹ کر تھی یا وقت کو ملحوظ خاطر رکھا گیا تھا۔ مسجد قبلتین سے ہم کھجوروں کے ایک باغ میں لے جائے گئے تھے۔ جہاں کھجوروں کی ایک شاندار دکان تھی۔ ایک چھوٹا سا ریستوران تھا جس کے پہلو میں ایک چبوترے کے اوپر قالین بچھا کر اس کی چاردیواری کے ساتھ بیٹھنے کے لیے گدیاں رکھ دی گئی تھیں اور ٹیک لگانے کی خاطر غلاف چڑھے اسفنجی گاؤ تکیے دھرے ہوئے تھے۔

بیشتر لوگ کھجوریں خریدنے اور کھجوروں کے درخت دیکھنے میں لگ گئے تھے کیونکہ روس میں رہنے والوں کے لیے کھجور کا درخت Exotic ہوتا ہے جو انہوں نے کبھی نہیں دیکھا ہوتا۔ میرے لیے کھجوروں کے یہ درخت بہت کوتاہ تھے کیونکہ میری جنم بھومی علی پور ضلع مظفر گڑھ میں ان سے چار گنا بلند کھجوریں ہوتی ہیں جن کی کھجوریں مدینے کی کھجوروں سے کہیں زیادہ لذیذ اور Original ہوتی ہیں۔ مدینے کی تمام کی تمام کھجوریں ماسوائے عجوٰی کے قلمی ہیں لیکن "ہماری" کھجوریں وہی ہیں جو عرب فوجوں کے سپاہیوں کے دہنوں سے گری کھجوروں کی گٹھلیوں سے اگی تھیں، اگرچہ وہ اب تیزی سے کم ہوتی جا رہی ہیں۔ چانچہ میں اسی چبوترے پہ "شیخ" بن کر بیٹھا رہا تھا۔

باغ عدن سے نکل کر پھر اکیسویں صدی کی غیر مسنون سواری یعنی بس میں بیٹھ گئے تھے اور اب لوہے کے اس اونٹ کا رخ کوہ احد کی جانب تھا۔ راستے میں البتہ جنگ احزاب کے علاقے میں واقع خندق کے ایک تھوڑے سے حصے والی جگہ پہ بس روکی گئی تھی۔ بس سے نکلنے نہیں دیا گیا تھا اور نہ ہی ہم نے خندق کا باقی ماندہ حصہ دیکھا تھا۔ بس ایک مسجد دکھائی دی تھی جس پر عثمان کی گفتگو کا اوور لیپ ہو رہا تھا۔ جب مسجد قباء کی جانب روانہ ہوئے تھے تو راستے میں ایک پہاڑی سے جھر جھر بہتے جھرنوں کو دیکھ کر حیرت ہوئی تھی، پہاڑی پہ پھولوں کی بھی بہتات تھی۔ سوچا تھا کہ عثمان سے پوچھوں گا کہ کیا یہ جھرنے قدرتی ہیں؟ ممکن ہے اوپر کوئی چشمہ ہو۔ یہ جھرنے ایک بار پھر نگاہوں کے سامنے تھے۔ عثمان نے خود ہی بتا دیا تھا کہ یہ مصنوعی ہیں۔ بہر حال تپتے ہوئے مدینے میں یہ منی منی آبشاریں آنکھوں کو بے حد بھلی لگی تھیں۔

Check Also

Karachi, Edad o Shumar Mein Lipti Hui Insani Almiya

By Dr. Muhammad Tayyab Khan Singhanvi