Mazdoori Kar Saka Aur Parh Na Saka
مزدوری کر نہ سکا اور پڑھ نہ سکا
مہمان نوازی کی اس نوع کی روش سے میرا چھوٹا بھانجا سہیل تو خجل تھا ہی میں بذات خود زیادہ مضطرب ہوا تھا۔ چھوٹے بھانجے کی جانب سے اس نوع کی مہمان نوازی کی سعی سے نہیں بلکہ یہ جان کر کہ دنیا میں انسانی حقوق کے سب سے بڑے علم بردار اور قانون کی حکمرانی کے داعی ملک ریاستہائے متحدہ امریکہ کے سب سے بڑے شہر کے عین بیچوں بیچ انسانی جسموں کے ساتھ یوں کھلے عام کھلواڑ ہو رہا تھا۔
میکسیکو اور دوسرے لاطینی امریکی ملکوں سے ملازمت کا دھوکہ دے کر لائی ہوئی ان لڑکیوں کو جو ماسوائے "سی سی" یعنی ہسپانوی زبان میں"جی جی" کہنے کے کسی اور زبان تا حتٰی انگریزی زبان کا لفظ نہیں بول سکتی تھیں ان کو جسم فروشی کے پیشے میں دکھیل دیا گیا تھا۔ میں تو وہاں سے بھاگ آیا تھا لیکن کتنے اور لوگ ہونگے جن کی طلب کے سبب انسانی جسموں کا یہ بیوپار چلتا رہتا ہے۔
مجھے بیروزگار ہونے سے بہت پریشانی تھی اگرچہ سعد کہتا رہتا تھا کہ کیا پریشانی ہے جب اللہ چاہے گا تو کوئی کام کرنے لگو گے۔ ایک روز اس نے ہنستے ہوئے مجھے بتایا تھا کہ میرے لیے ایک کام نکلا ہے۔ ہے بہت آسان، نہ ٹیکسی چلانے کا نہ سیون الیون پر کام کرنے کا لیکن تم کروگے نہیں۔ یہ کہہ کر اس نے زور زور سے ہنسنا شروع کر دیا تھا۔ میرے استفسار پر بتایا تھا کہ سڑک کی مرمت کے دوران، ٹریفک کو سبز اور سرخ جھنڈیاں دکھانے کا کام ہے۔ نو ڈالر فی گھنٹہ معاوضہ ہے۔ پھر خود ہی یہ کہتے ہوئے کہ جھنڈیاں دکھاتے ہوئے کیسے لگو گے؟ کھی کھی کرکے ایک بار پھر ہنسنا شروع کر دیا تھا۔ "کام ہے اس میں کیسا لگنا اور کیسا نہ لگنا تو کوئی ہنسی کی بات نہیں" سعولد کی بیوی نے کہا تھا لیکن اپنے چچا کی جانب دیکھتے ہوئے خود بھی زیر لب مسکرا رہی تھی۔ میں نے با آواز بلند "لاحول" پڑھنے پر اکتفا کیا تھا جس پر سعد نے سنجیدگی اختیار کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں کونسا تمہیں یہ کام کرنے کو کہہ رہا ہوں، اصل میں نے ایک آدمی کے ذمے کام ڈھونڈنے کی ڈیوٹی لگائی تھی جس نے آج یہ تجویز دی۔
مجھے لگا تھا کہ چاہے سعد اور اس کی بیوی زبان سے نہ کہتے ہوں لیکن یقیناََ وہ چاہتے ہونگے کہ میں کوئی کام کرنے لگ جائے۔ اس تجویز کے چند روز بعد 5 نے سعد سے کہا تھا کہ وہ مجھے اس سیون الیون پر چھوڑ ائے جہاں وہ ٹیکسی چلانے کے دوران کافی پینے جایا کرتا تھا اور جس پر شاہدرہ کا ایک جوان شخص کام کرتا تھا جو امریکہ آنے سے پہلے وکیل تھا۔ سعد نے حیرت سے پوچھا تھا کہ تم گیس سٹیشن پر کام کرو گے؟
سعد کو اس لیے حیرے ہوئی تھی کیونکہ جب بیس برس پیشتر سعد نے امریکہ جانے کی ٹھانی تھی تب اس نے مجھے بھی امریکہ جانے پر راغب کرنے کی کوشش کی تھی مگر میرا جواب تھا، " میں کتنی خفت محسوس کروں گا جب میں گیس فلنگ سٹیشن پر کام کر رہا ہوں گا اور میرا وہ ہم جماعت جو چند سال پہلے امریکہ سدھار چکا تھا اپنی ایس یو وی میں گیس ڈلوانے آئے اور میری اس سے آنکھیں چار ہوں" تب مجھے یہ نہیں معلوم تھا کہ امریکہ میں عموماََ گاہک اپنی گاڑی میں خود ہی پٹرول بھرتا ہے جبکہ گیس سٹیشن پر کام کرنے والا ملحقہ سٹور کے رجسٹر پر کھڑے ہو کر پیسے وصول کرکے پمپ کا بٹن آن کر دیتا ہے۔ میں نے سعد کے سوال کے جواب میں کہا تھا، " کوشش کرکے دیکھتا ہوں"۔
اگلے روز سعد مجھے اپنے ساتھ لے گیا تھا اور مجھے سابق وکیل اور موجودہ سیلز مین کے پاس چھوڑ دیا تھا۔ چند گھنٹے بعد سابق وکیل نے مجھ سے کہا تھا کہ "بروم" (جھاڑو) پکڑ کر سٹور کے دروازے کے نزدیک گرے ہوئے سگریٹ کے ٹکڑے سمیٹیں اورر ڈسٹ بن میں ڈال دیں۔ میں نے زندگی میں کبھی جھاڑو نہیں پکڑی تھی، چاہے ماسکو کا پارٹمنٹ ہی کیوں نہ تھا، میں نے دل کڑا کرکے ایک منٹ سے بھی کم وقت کا یہ کام کر دیا تھا لیکن مجھے ایسے لگا تھا جیسے میں اوپر کی کسی منزل سے دھڑام سے زمین پر آ گرا ہوں۔ رات کو کسی وقت میں نے سابق وکیل اور موجودہ سیلز مین اور اپنے حالیہ باس سے پوچھا تھا کہ "فریزر میں بوتلیں کیسے رکھتے ہیں؟"
اس نے کہا تھا کہ یہ کام آپ نہ کریں میں خود کروں گا پھر وہ ایک دبیز جیکٹ پہن کر فریزر میں داخل ہوا تھا، اس کے ساتھ میں بھی داخل ہوگیا تھا مگر چند سیکنڈ بعد ہی سردی کے باعث "ہو ہو" کرتا باہر نکل آیا تھا۔ صبح تڑکے جب سعد کافی پینے وہاں پہنچا تھا تو اس نے مجھ سے پوچھا تھا، "اپنے ساتھی کے ساتھ اس کے ہاں جا کر رہو گے کہ میرے ساتھ گھر جاؤگے؟" میں نے کہا تھا، " میں تمہارے ساتھ جاؤں گا"۔ سابق وکیل نے سعد سے کہا تھا، "آپ انہیں لے ہی جائیں، انہوں نے چند لمحوں کے لیے جھاڑو پکڑی تھی لیکن ان کے چہرے کے تاثرات دیکھنے والے تھے۔ میرے خیال میں یہ ایسا کام نہیں کر سکیں گے"۔ یوں میں گھر لوٹ آیا تھا۔
میں نے سوچا تھا کہ بہتر ہے یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا جائے۔ یہاں کی کوئی مناسب ڈگری ہوگی تو کوئی بہتر ملازمت مل سکے گی۔ میں نے مطلوبہ انگریزی کا ٹیسٹ بھی پاس کر لیا اور یونیورسٹی میں داخلے کے لیے میں اہل بھی قرار دے دیا گیا تھا مگر میں نے پھر سوچا تھا کہ تعلیم کے اخراجات پورے کرنے کے لیے بھی تو رات کو ٹیکسی ہی چلانی پڑے گی چنانچہ میں نے یونیورسٹی میں داخلہ لینے کا ارادہ بھی ترک کر دیا تھا۔