Main Aur Baqi Panch Aur
میں اور باقی پانچ اور
اگرچہ سردی نہ تھی لیکن کھلی فضا میں اتنی ٹھنڈک ضرور تھی کہ نہ معلوم کب کا بھڑکایا گیا الاؤ اب بدل چکے ہلکے ہلکے سلگتے انگاروں اور کسی حد تک تپتے بھوبل میں بدل چکا تھا اور روشن تھا۔
اس کے گرد بالکل ایک سی عمر کے غلام محمد، قیس، نعیم، عتیق، شکیل اور مجاہد خاموش بیٹھے تھے۔ نہ کوئی ہاتھ تاپ رہا تھا نہ کوئی کسی کی جانب دیکھ رہا تھا۔ نہ ان کی نگاہیں حدت اور روشنی کم پڑتی آگ کی جانب تھیں اور نہ کسی نے آنکھیں موندی ہوئی تھیں۔ کوئی نندیایا ہوا بھی نہیں لگتا تھا۔
کوئی کچھ نہیں سوچ رہا تھا البتہ ہر ایک اپنے متعلق اس دبدہا میں ضرور تھا کہ وہ کون ہے اور یہاں کیسے پہنچا اور کہاں سے پہنچا۔ کوئی کسی سے پوچھتا بھی تو کیا پوچھتا کہ کسی کو اپنے نام تک کا یقین نہ تھا۔ شائبہ البتہ ضرور تھا۔
پھر یک دم سبھوں نے کئی بار آنکھیں جھپکیں اور ایک دوسرے کی جانب دیکھا، سبھوں کو یہی لگا جیسے وہ اپنے علاؤہ باقی پانچوں کو جانتے ہیں مگر خود آگاہی سے عاری ہیں۔
آخر کار ان میں سے ایک جس کی خشخشی داڑھی اور خشمگیں نگاہیں تھیں نے قیس کی جانب دیکھتے ہوئے بولنا شروع کیا لیکن اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ اس کا نام غلام محمد ہے مگر قیس کو اس کا نام بلکہ باقی چاروں ک نام بھی معلوم تھے لیکن جب جسے وہ غلام محمد کے نام سے جانا تھا، نے اسے قیس کہہ کے مخاطب کیا تب اسے معلوم ہوا کہ اس کا نام قیس ہے۔ " قیس تم میں ہو، میں تو تھا ہی نہیں۔ میں بس دعاؤں میں تھا، وہ بھی اس خاتون کی دعاؤں میں جسے میری ماں ہونا تھا۔ مجھے اس کے دل کے راستے اس کے بطن میں معلوم ہوا تھا کہ وہ مجھے دنیا میں آنے کے بعد اس نام سے پکارنا چاہتی تھیں جس کا مجھے شائبہ ہے"۔ " یعنی غلام محمد؟" اس نے کہا جسے قیس سے اپنے نام بارے معلوم ہوا تھا۔
"ہاں، ہاں غلام محمد، اسی نام کا تو مجھے اپنا نام ہونے کا شائبہ تھا البتہ تمہارے کہنے سے توثیق ہوگئی"۔ وہ بولا۔
"ویسے ہی جیسے تم نے مجھے قیس پکارا تو مجھ پہ عقدہ کھلا کہ یہی تو میرا نام ہے، اس نام کے بارے میں مجھے شبہ تھا کہ یہ میرا نام ہوگا لیکن میں بھی تمہاری طرح سے ہوں نہیں یعنی لالوجود ہوں"۔
"تو قیس، مجھے اپنی ہونے والی والدہ کے دل میں بسی آرزو سے جو دھڑکن کی صورت میرے خام بدن سے ٹکرا کے ارتعاش کی صورت میرے ناپختہ ذہن میں پہنچتی کہ وہ مجھے پیدائش کے بعد اس ہستی کے غلام کے طور پہ پکارنا چاہتی ہے جسے وہ اپنا پیشوا، پیامبر، نبی اللہ، رسول اللہ جانتی تھی۔ مجھے ان سب لفظوں کے معانی کا نہ تب علم تھا نہ اب معلوم ہے اور یہ بھی پتہ نہیں کہ اللہ کیا یا کون ہے اور مجھے اس کے نبی یا رسول کا غلام کیوں بننا تھا"۔
وہ تھوڑی دیر کو کچھ کہنے کو رکا تو قیس نے کہا، "اگرچہ میں ہوں نہیں لیکن میں کسی اور بلکہ کئی اور کا نام رہا جیسے قیس مجنون یا امراؤالقیس، یہ دونوں صحرا سے تھے ایک شاعر تھا اور ایک کسی لیلیٰ کا دیوانہ یعنی اسے جنون تھا، جنون یعنی جن سوار ہونا۔ ایک جس محمد کا نام تم نے لیا ان سے پہلے تھا ایک ان کے بعد۔ مجھے یہ نام ان دونوں کے ضمن میں سننے کو ملا تھا، کہتے تھے امراؤالقیس کی شاعری انہیں پسند نہ آئی اور۔ مجنوں ان کے احکام بھلا بیٹھا تھا"۔
ادھر سے کسی اور نے بھی قیس ہی کو پکارا جسے اپنا نام معلوم تھا لیکن یقین نہ تھا مگر قیس اس کے نام سے شناسا تھا جو نعیم تھا اور اس سے کہہ رہا تھا، "جب تم جو غلام محمد تھے، دنیا میں آ گئے تو تمہاری ماں کا تمہیں دیا نام کسی کو بھی یعنی تمہاری ماں کے بڑے بچوں کو قبول نہ تھا کہ نام بھی اس دنیا میں کپڑوں اور زبان کی طرح فیشن کے مطابق برتے جاتے ہیں چنانچہ تم پیدا تو ہوئے مگر غلام محمد نہ رہے کہ تمہاری ماں نے اکتا کے کہا تھا کہ اگر یہ غلام محمد نہیں تو اسے قیس پکارو، سب نے تمہیں رد کر دیا اور تم ہونے سے پہلے ہی نہ ہوئے اور میرا ہونا طے ہوا لیکن یہ طے ہونا بھی تذبذب میں تھا چنانچہ میں بھی نہ ہوا"۔ یہ کہہ کے نعیم ایسے خاموش ہوا جیسے وہ کبھی بولا ہی نہ ہو۔
غلام محمد نے چوتھے کو عتیق کہہ کے پکارا تو اسے معلوم ہوا کہ وہ واقعی عتیق تھا جبکہ اسے مخاطب کرنے والے کا نام غلام محمد تھا جس کے ساتھ قیس اپنی کھڑاؤں پہ اکڑوں بیٹھا تھا اور اس کے ساتھ ہی نعیم اپنے ایک جاگر کے وزن پہ دوسرے جاگر کے پنجے پر بیٹھا کہیں نہیں دیکھ رہا تھا۔
"عتیق دیکھو تم تو محض خط میں تحریر نام تھے، خط کو کسی نے پڑھنے کے بعد درخور اعتنا نہ جانا تو تم بھلا کیسے ہوتے، تم تو پیدا ہو چکے بچے کی ماں کی آرزو تک میں نہیں تھے"۔ عتیق یہ سن کے کسمسا کے رہ گیا جیسے خط کو سامنے تپی راکھ پہ دھر دیا گیا ہو جو پہلے ہی خشک ہونے کے سبب آگ پکڑ گیا اور پہلا حرف جو جل کے مٹا وہ عتیق کا عین تھا۔
شکیل کو تو کسی نے پکارا تک نہیں لیکن اس نے کہ اسے اپنا نام شکیل ہونے کا بس شائبہ تھا ساتھ بیٹھے مجاہد کو بازو پہ ٹہوکا دے کے پوچھا، "مجاہد، کیا تم بھی ہم سب کی مانند نہیں ہو مگر ہو تو مجاہد چونکا کہ اسے اب اپنے نام کا یقین ہو چکا اور بولا، " نہیں شکیل میں ہی تو ہوں، شکیل بھی میں ہوں، عتیق بھی میں، نعیم بھی میں، قیس بھی میں اور غلام محمد بھی میں ہی ہوں"۔
یہ سنتے ہی باقی پانچوں یک زبان ہو کے پکارے، "یعنی ہم ہیں جو خود کو نہیں ہیں سمجھتے رہے لیکن ہم جو نہیں تھے اور ہیں وہ علاحدہ علاحدہ کیوں ہیں؟ جیسے تم نے کہا مجاہد کہ ہم سب تو تم ہیں"۔
مجاہد اداس مسکان کے ساتھ بولا کہ تم سب نہیں ہو، تم سب میرا عکس ہو یا میں تم سب کا عکس۔ آؤ مل جائیں، سب کے منہ سے یک زباں وہی نکلا جو مجاہد نے کہا تھا یعنی آؤ مل جائیں۔ سب نے بجھتے الاؤ کے اوپر ہی ایک دوجے کے گلے میں باہیں ڈالیں تو مجاہد جاگ گیا، پسینے میں سنا ہوا، اے سی کب کا بند ہو چکا تھا۔ فین اس نے بہت پہلے آف کر دیا تھا۔ آکسیجن لگتا تھا، کم ہو چکی ہے۔ وہ تلملا کے اٹھا اور کھڑکی کھول دی۔ باہر سے تازہ ہوا اور پرندوں کی چہکار دونوں ہی نے آ کے اسے پوری طرح بیدار کر دیا تھا اور وہ سوچنے لگا تھا، میں کون ہوں غلام محمد، قیس، نعیم، عتیق، شکیل یا مجاہد۔۔