Lahu Ka Raag
لہو کا راگ
کوئی انشاء پردازی نہیں درکار، کسی نوع کی لفّاظی کی ضرورت نہیں ہے، اگر سینے میں حساس انسان کا دل دھڑکتا ہے، اگر کوئی کسی نظریے یا مقصد سے بے حسی کا شکار نہیں ہوا تو وہ کل سے ایک بار نہیں بار بار رو چکا ہوگا۔ ایسا الم جس کا مداوا ممکن نہیں۔ وہ سب طالبعلم تھے یا ان کے اساتذہ یا کسی نہ کسی حوالے سے علم سے وابستہ، چاہے وہ سکول کا چوکیدار ہی کیوں نہیں تھا۔ میڈم لیفٹیننٹ کرنل قاضی کی جراءت، جوانمردی اور جذبہ قربانی کی جس قدر بھی داد دی جائے، کم پڑے گی۔ جنرل راحیل شریف کا کہا صد در صد درست کہ دہشت گردوں نے پاکستان کے قلب پر وار کیا ہے۔ ایک بچے کا انہیں یہ کہنا کہ ہمیں "ضرب عضب" کے سپاہی خیال کریں، ایک بھی دہشت گرد کو زندہ نہ چھوڑیں، زخمی بچے کی فوج کے ساتھ یک جہتی کا اظہار بھی ہے اور مطالبہ بھی۔ میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے کہا کہ طالبان کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے کو بھی نہیں چھوڑیں گے۔ خواہش تو یہی ہوگی کہ یہ تعزیت کے دوران کہے جانے والے الفاظ ہی نہ رہیں بلکہ ان کو عملی جامہ بھی پہنایا جائے۔
وحشیوں کا سرغنہ خراسانی کہتا ہے کہ بچوں کا قتال بالکل احکام نبوی کے مطابق کیا گیا۔ آپ نے بنو قریظہ کے ہر اس بچے تک کو قتل کرنے کی ہدایت کی تھی جس کے زیر ناف بال دکھائی دینے لگیں۔ اس نے طرح دین کے نام پر لوگوں کو ورغلانے کی سعی کی گئی ہے۔ بنوقریظہ کے واقعے سے متعلق مارٹن لنگز کی مصدقہ ترین کتاب "محمد: ابتدائی ذرائع کے مطابق ان کی زندگی" سے اقتباسات: " پیغمبر نے حکم دیا کہ کوئی نماز عصر نہ پڑھے جب تک بنو قریظہ کے علاقے میں نہ پہنچ جائیں۔۔ ان کا 25 راتیں محاصرہ کیا گیا۔۔ انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی گئی۔۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں موت قبول ہے ہم تورات اور احکام موسوی کو نہیں چھوڑیں گے۔۔ انہیں یہ بھی کہا گیا کہ ہتھیار ڈال دیں ان کے ساتھ نرم سلوک کیا جائے گا جیسے بنو قینقاع کے ساتھ کیا گیا تھا لیکن وہ نہ مانے۔۔ اکثریتی رائے قتال کی تھی۔۔ پیغمبر کے حکم کے مطابق آخری فیصلہ، قتال کے حق میں سعد بن معاذ نے کیا۔۔ فیصلہ تھا: "مرد قتل کر دیے جائیں، جائیداد تقسیم کر دی جائے، عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا جائے"۔۔ عورتوں اور بچوں کو شہر لے جایا گیا اور مرد کیمپ میں رہنے دیے گئے، جو ساری رات تورات کا ورد کرتے رہے اور ایک دوسرے کو حوصلہ دیتے رہے۔ پیغمبر نے لمبی، تنگ اور گہری خندقیں کھودنے کا حکم دیا۔ مرد جو سات سو تھے کچھ کے مطابق زیادہ کچھ کے مطابق کم، کو چھوٹے چھوٹے گروہوں میں بھیجا جاتا، انہیں خندق کے کنارے بیٹھنے کو کہا جاتا۔ پھر علی اور زبیر اور دوسرے جوان ساتھی ایک ہی زور دار وار سے ان کا سرقلم کرتے"۔
ایک بوڑھا یہودی زابیر ابن بتعا کا فیصلہ نہیں کیا گیا تھا، اسے عورتوں اور بچوں کے پاس بھیج دیا گیا۔ جب اس نے مردوں کے قتل کے بارے میں بتایا تو وہ بین کرنے لگیں، اس نے کہا" چپ ہو جاؤ تم بنی اسرائیل کی پہلی غلام عورتیں نہیں ہو۔ اگر تمہارے مردوں میں کوئی خوبی ہوتی تو وہ تمہیں غلام بننے سے بچا لیتے"۔ زابیر اسلام کا دشمن تھا جس نے پیغمبر اسلام کے خلاف کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا تھا لیکن اس نے یثرب کی خانہ جنگی کے دوران ایک خزرج شخص ثابت بن قیس کی زندگی بچائی تھی۔ زابیر کو ان کے حوالے کر دیا گیا کہ جو چاہے سلوک کرو، جب انہوں نے اسے زندہ رہنے کی خبر دی تو اس نے کہا" بیوی اور بچوں کے بغیر ایک بوڑھا شخص جی کر کیا کرے گا؟" ثابت حضور کے پاس گئے جن کو انہوں نے زابیر کی بیوی اور بچے دے دیے۔ زابیر نے پھر کہا، "حجاز میں بغیر جائیداد کے ایک کنبہ کیسے رہ سکتا ہے؟"۔ ثابت پھر آپ کے پاس گئے۔ آپ نے انہیں اس کی تمام اشیاء دے دیں ماسوائے ہتھیار اور زرہ کے۔ مگر زابیر پر اپنے قبیلے والوں کے قتال کا بہت اثر تھا۔ اس نے کہا، "ثابت میں نے تم سے بھلا کیا تھا، مجھ سے بھی بھلا کرو اور مجھے میرے لوگوں کے پاس بھجوا دو، ان کے جانے کے بعد زندگی میں کچھ باقی نہیں بچا"۔ ثابت اسے مقتل میں لے گئے اور زبیر سے کہا کہ اس کا سر قلم کر دیں۔ اس کے بیوی بچوں کو آزاد کر دیا گیا اور ثابت بن قیس کی سرپرستی میں ان کی تمام جائیداد انہیں لوٹا دی گئی۔ "
کوئی اس نابکار خراسانی سے پوچھے کہ پشاور پبلک سکول کے بچے کیا اڑیل یہودی قبیلے بنو قریظہ کے مرد تھے، جو جنگ سے منہ نہیں موڑتے تھے، ریشہ دوانیوں سے باز نہیں آتے تھے، امن کے لیے کوئی تجویز نہیں مانتے تھے۔ یہ سارے بچے تو بس بچے تھے بالغ کم ہی تھے اور سب کے سب مسلمان بھی اور تو اور بچ جانے والا ایک بچہ تو لاعلمی میں دہشت گردوں کی داڑھیوں کے بارے میں بھی یوں کہتا ہے، " دہشت گردوں کی اتنی بڑی بڑی داڑھیاں تھیں ماشاءاللہ سے اور وہ عربی بول رہے تھے" یہ بچے تو اس قدر معصوم ہیں کہ انہیں یہ نہیں معلوم کہ ماشاءاللہ کا استعمال کہاں اور کیسے کیا جائے۔ تم نے ضرب عضب کا بدلہ نہیں لیا بلکہ تم نے انسانیت پر قہر توڑا ہے۔ اب انسانیت کے لیے بھی لازم ہو چکا ہے کہ تم اور تم جیسے لوگوں کے ساتھ کوئی نرمی نہ دکھائے۔
دہشت گردی کوئی جنگ نہیں ہوا کرتی بلکہ یہ محض دہشت گردی ہوا کرتی ہے۔ جنگ بے قصور اور نہتے لوگوں کے خلاف مستزاد یہ کہ بچوں کے خلاف نہیں لڑی جاتی۔ جنگ اپنے مدمقابل مسلح لوگوں کے ساتھ کی جاتی ہے اور جنگ لڑنے کے بھی کچھ مقاصد ہوا کرتے ہیں۔ جس مقصد کا تم سہارا لیتے ہو یعنی نفاذ شریعت کا وہ تو پرامن طریقے سے بھی پورا کیا جا سکتا ہے۔
دہشت گردوں کے غیر مسلح ساتھی دہشت گردوں سے بھی زیادہ خطرناک ہیں جو ہمارے ساتھ رہتے ہوئے ہمارے ہی متعلق ہمارے ہی دشمنوں کے حوصلے بڑھاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ طالبان اور ہمارا مقصد ایک ہے صرف طریق کار میں فرق ہے۔ ایسے لوگ چاہے منور حسن کی شکل میں ہوں یا عمران خان کی صورت میں، عارضی طور پر اور کچھ نہیں تو ان کی زبان بندی کر دی جانی چاہیے جس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ میڈیا ان کے فرمودات کو عام نہ کرے۔
لہو کا جو راگ چھڑا ہے، اس کے سحر سے آزاد کیے جانے کی خاطر حکومت اور معتدل مزاج سیاسی پارٹیوں کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ اپنے اپنے حلقہ ہائے اثر میں "جہاد اور معاصر دنیا کے تقاضے" کے بارے میں سیمینار منعقد کروائیں۔ نام نہاد جہاد جو جہاد نہیں فتنہ ہے کے خلاف ایک بھرپور مہم کا آغاز کریں۔ اب پولیس اور خفیہ اداروں کو چاہیے کہ پشاور تا کراچی دہشت گردی مخالف مہم کو تیز اور بھرپور کریں۔ "ابھی نہیں تو کبھی نہیں" والا رویہ اختیار کریں۔ میجر جنرل عاصم کی کہی بات کہ طالبان کے حمایتیوں اور ہمدردوں کو بھی نہیں چھوڑا جائے گا کو عملی جامہ پہنائیں۔ اس "لہو کے راگ" کو پوری قوت کے ساتھ روکے جانے کی اشد ضرورت ہے ورنہ پاکستان کو شام اور عراق بننے سے روکنا مشکل ہو جائے گا۔