Insano Ki Barabari Ka Tasawur Aur Haqeeqat
انسانوں کی برابری کا تصور اور حقیقت
دنیا بلکہ اگر کائنات میں بھی کہیں انسان ہوں تو ان سب کو یقیناََ سہولتوں سے استفادہ کرنے کے برابر کے حقوق حاصل ہونے چاہییں مگر ہم سب جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے کیونکہ ہم مسابقت کے ماحول میں رہتے ہیں۔ نظام معیشت چاہیے سرمایہ دارانہ ہو چاہے معدوم ہوتا ہوا اشتمالی و اشتراکی، اسلامی ہو یا مخلوط، مسابقت بہرحال ہر شعبے اور ہر میدان میں ہوتی ہے۔ مسابقت کو زندگی سے خارج کیا جانا ممکن نہیں کیونکہ مسابقت کے نتائج سے ہی انسانوں کے رتبوں کے تعین، صلاحیتوں کی درجہ بندی اور فرائض کی تقسیم کے اعمال پورے کیے جا سکتے ہیں۔
یہ کہنا کہ تمام انسان رتبے اور صلاحیت میں ایک جیسے ہیں۔ تمام انسان سوچنے کی ایک جیسی صلاحیت رکھتے ہیں۔ سیکھنے کی ایک جیسی صلاحیت رکھتے ہیں، طبی حوالوں سے غلط ہوگا کیونکہ ایسے امراض بھی ہیں جو لوگوں کی صلاحیت کو محدود کر دیتے ہیں۔ جسمانی استعداد میں کمی کے حامل سبھی افراد سٹیفن ہاکنگ کے سے ذہن اور قوت اردای کے حامل نہیں ہوتے اور نہ سبھوں کو اتنی تکنیکی آسائشیں میسّر آ سکتی ہیں جتنی انہیں ہیں۔ سماجی طور پر بھی سبھی ایک طرح کے رتبوں تک نہیں پہنچ سکتے۔
طب اور عمرانیات دونوں ہی سائنسی علوم ہیں۔ طب نے طے کیا ہے کہ کچھ لوگ غبی ہوتے ہیں اور کچھ فاتر العقل، کچھ بہت ذہین، کچھ ذہین، کچھ اوسط ذہن کے حامل۔ عمرانیات طے کرتی ہے کہ خاص صلاحیتوں کے حامل افراد کو خاص رتبوں پر متعین کیا جانا چاہیے۔ معدنیات کے ماہر کو خارجہ امور کا شعبہ نہیں سونپا جا سکتا اور بہت ممکن ہے کہ خارجہ امور پر گرفت رکھنے والا ماہر کسی ملک کے داخلی معاملات کو سنبھالنے میں یکسر ناکام ثابت ہو۔
انسانوں کی برابری کا تصور مغربی ملکوں میں جو ہمہ طرفہ ترقی یافتہ ملک ہیں سبھی انسانوں کے لیے یکساں قوانین کا اطلاق اور برابر کے امکانات فراہم کیے جانا بہت حد تک اس لیے درست ہے کہ وہاں ایک بڑی حد تک معاشرتی طور پر شفاف فضا پیدا کی جا چکی ہے لیکن ان ملکوں میں بھی مفادات کے حصول کو سریع بنانے میں تعلقات استعمال کیے جاتے ہیں۔ سوشلسٹ ملکوں میں تو رتبوں اور سہولتوں کی خاطر تعلقات پہلے بھی اہم رہے تھے اور آج بھی اہم ہیں۔ پارٹی کا رکن ہونا اور پارٹی کے اعلٰی حلقوں سے اچھے تعلقات ہونا اچھا رتبہ پانے اور زیادہ سہولتیں حاصل کرنے کی ضمانت ہوتے ہیں۔
ان ملکوں میں جہاں کوئی بھی نظام اپنی بدتر حالت میں ہو وہاں انسانوں کی برابری کا تصور کیا جانا محال ہوتا ہے۔ اقرباء پروری، بدعنوانی، صلاحیتوں کی نفی کیا جانا اور اسی نوع کی دیگر قباحتوں کے ہوتے ہوئے انسانوں کا برابر ہونا مشکل ہی نہیں بلکہ تقریباََ ناممکن ہو جاتا ہے۔
انسانوں کی قابلیت یا ذہنی استعداد ایک طرح کی ہو ہی نہیں سکتی ورنہ جتنے لوگوں کو چاہا جاتا تربیت دے کر نابغہ لوگوں میں تبدیل کر دیا جاتا۔ نابغہ ہونا یا فنکار ہونا خدا داد صلاحیتوں کے باعث ممکن ہوتا ہے ان کی ان صلاحیتوں کو تعلیم و تربیت سے محض صیقل کیا جاتا ہے۔
تصور کے حقیقت میں ڈھلنے کے لیے اتنے بہت سے مراحل طے کرنے پڑتے ہیں جن کو طے کرتے ہوئے اگر پہلے صدیاں لگتی تھیں تو آج بھی عشروں سے کم عرصہ درکار نہیں ہے۔ ان ادوار میں سول سوسائٹی کا فروغ، انتخابات کے عمل کو شفاف کیا جانا، قانون ساز ایوانوں میں شمولیت کی خاطر باصلاحیت، مستعد اور مساوات پرست نمائندوں کا چناؤ کیا جانا، معیشت کو فروغ دیا جانا اور معاشرت میں اقدار کو بلند کیا جانا جیسے اعمال پر کاربند ہونے کو شعار بنانا ہوتا ہے تاکہ انسانوں کے لیے برابری کو ممکن بنانے کی خاطر قوانین سازی کی جائے جن کے توسط سے اس ملک میں موجود انسانوں کو برابری کے حقوق اور امکانات سے استفادہ کرنے کے برابر مواقع مل سکیں۔
انسانوں کی برابری کا تصور محض تصور ہو تو وہ خیالی ہوتا ہے البتہ حقیقت میں ڈھل جائے تو انسانوں کی برابری کا معاملہ ایجنڈے سے خارج ہو جاتا ہے۔ جہاں انسانوں کے لیے حقوق اور امکانات سے استفادہ کرنے کے مواقع برابری پر مبنی ہو جائیں وہاں کے لوگ دوسرے ملکوں کے انسانوں کے لیے برابری کی بات کرنے لگتے ہیں لیکن اس میں بھی ایک اڑچن ہے کہ اس وقت دنیا میں جیسے حالات ہیں ان کی آڑ لیتے ہوئے وہی حکومتیں اور وہی قانون ساز ایوان جو اپنے ملکوں کے انسانوں کے لیے مسلسل برابری کے اصول کو مطمع نظر بنائے ہوئے ہوتے ہیں وہ "قومی مفادات" کے تحت دوسرے ملکوں کے انسانوں کے لیے نہ صرف برابری کے حصول کی کوششوں کو پامال کرتے ہیں بلکہ ایسا کیے جانے کو بہت حد تک ناممکن بنا دیتے ہیں۔ چنانچہ برابری کے تصور کو حقیقت بنانے کی خاطر بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اور قوموں کو بہت کٹھنائیوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے تب کہیں جا کر خواب کی تعبیر مل پاتی ہے۔