Chehra Sarmaya Darana Jamhuriat Ka
چہرہ سرمایہ دارانہ جمہوریت کا
ایک ہی سیاسی حکومت تھی، پیپلز پارٹی کی جس کی مدت تمام ہونے سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو نے انتخابات کروا دیے تھے۔ اس سے پہلے اور اس کے بعد کی نام نہاد سیاسی حکومتیں فوجی آمروں کی چھتری تلے بنتی رہیں۔
یہ بات عموماََ کہی جاتی ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں نے انتخابات کو اس قدر کثیر اخراجات کیے جانے کا عمل بنا ڈالا ہے کہ نچلے طبقے کی تو بات ہی کیا کرنی درمیانے طبقے کی بالائی پرت سے تعلق رکھنے والا آدمی بھی انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قانون ساز اسمبلیوں میں جانے کے خواہشمند افراد انتخابات کو سرمایہ کاری کا عمل سمجھتے ہیں تاکہ بعد میں مالی مفادات لیے جائیں، شاید یہ ایک وجہ ہے کہ ایسے اراکین مناسب قانون سازی پر توجہ دینے سے قاصر رہتے ہیں۔
جمہوریت اپنی اصل میں سرمایہ دارانہ ہے۔ کہنے کو تو کمیونسٹ نظام کے حامل ملکوں میں بھی انتخابات کروائے جاتے ہیں اور وہاں رائج نظام کو جمہوری گردانا جاتا ہے مگر یقیناََ نہ وہ انتخابات جمہوری ہوتے ہیں اور نہ نظام جمہوری کیونکہ ایک ہی پارٹی کی حکومت کا چلن ہوتا ہے۔
سرمایہ دارانہ جمہوری انتخابات میں بالعموم باوسائل افراد ہی حصہ لے سکا کرتے ہیں کیونکہ بہر طور انتخابی مہمات میں اخراجات آتے ہیں، چاہے وہ امریکہ میں ہوں، روس میں یا برطانیہ اور فرانس میں مگر ان ملکوں میں کم تعداد میں ہی سہی مگر کم وسیلہ افراد کو بھی اسمبلی میں پہنچنے کے مواقع ملتے ہیں۔ ایسا کیسے ہوتا ہے؟
جن ملکوں میں جمہوریت مستحکم ہے وہاں پارٹیاں بھی مستحکم ہیں۔ بالعموم دو یا تین بڑی پارٹیاں ہوتی ہیں بعض اوقات دو ہی جیسے امریکہ اور برطانیہ میں۔ دوسری چھوٹی پارٹیاں بھی انتخابی عمل میں شریک ہوتی ہیں۔ کچھ ملکوں میں اسمبلیوں میں پہنچنے کی خاطر کچھ تحدیدات ہوتی ہیں جیسے روس میں کہ اگر کوئی پارٹی انتخابات میں جیتنے والوں کے پانچ فیصد سے کم شستوں کی حامل ہو تو اس کے جیتے ہوئے امیدواروں کو بھی اسمبلی میں جانا نصیب نہیں ہوتا۔
کہیں متناسب نمائندگی کا طریقہ ہوتا ہے کہ کل اراکین کی تعداد کے جس پارٹی میں سے جتنے فیصد امیدوار کامیاب ہوئے ہوں اسی تناسب سے اراکین اسمبلی میں جا پائیں گے، باقی نہیں جا سکیں گے۔ انتخابات کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے تناسب طے ہونے کے بعد پارٹی فیصلہ کرتی ہے کہ کن کن جیتے ہوئے افراد کو اسمبلی میں بھیجا جائے اور باقیوں کو کس طرح سیاست میں شریک رکھا جائے۔
ان تمام ملکوں میں امیدواروں کی مالی اعانت پارٹی فنڈ سے کی جاتی ہے۔ ہر نوع کے چندے، عطیات وغیرہ پارٹی کے اجتماعی فنڈ میں جاتے ہیں۔ چنے ہوئے امیدواروں کو نہ صرف پارٹی مالی امداد دیتی ہے بلکہ حکومت بھی تمام پارٹیوں کو انتخابات کے لیے رقوم فراہم کرتی ہے۔ چنانچہ اپنی محنت اور لیاقت کے طفیل پارٹی میں نیچے سے اوپر پہنچنے والے کم وسیلہ افراد بھی انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں۔
ان ملکوں میں الیکشن کمیشن کو اخراجات پر کڑی نظر بھی نہیں رکھنی پڑتی کیونکہ پارٹیاں قوانین کی پابند ہوتی ہیں دوسرے مقرر حد سے زیادہ اخراجات کرنے کی ضرورت بھی اس لیے نہیں محسوس ہوتی کہ لوگ سیاسی طور پر باشعور ہوتے ہیں۔ ان کو رہنماؤں سے عقیدت نہیں ہوتی۔ وہ ووٹ دینے کی خاطر افراد کو کم اور پارٹیوں کے منشور کے ساتھ ساتھ پارٹی کی کارکردگی کو زیادہ دیکھتے ہیں۔
اس کے برعکس پاکستان میں اول تو انتخابات میں امیدوار بننے کی فیس ہی شاید ایک عام شخص کے بس میں نہ ہو پھر جس کے پاس کچھ نہیں ہوتا اسے پارٹیاں بھی عام کارکن تک محدود رکھتی ہیں۔ الیکشن کمیشن اگرچہ اخراجات کی حد مقرر کرتا ہے مگر شاید ہی کوئی اس کے مطابق اخراجات کرتا ہو اور شاید ہی کسی کو حد سے بڑھ کر اخراجات کرنے کی پاداش میں کوئی سزا دی جاتی ہو۔ کہا جاتا ہے لاہور میں ایک پارٹی کے ایک رکن نے ضمنی انتخابات میں، دروغ بر گردن راوی، ایک ارب روپے خرچ کیے تھے اور چھپایا بھی نہیں تھا۔ وہ پرسوں پھر انتخابات میں امیدوار ہیں۔
جب تک پارٹیوں کو احساس نہیں ہو جاتا کہ ان کی جانب سے تمام طبقات کے نمائندے اسمبلیوں میں جانے چاہییں تب تک امراء ہی اسمبلیوں میں جائیں گے۔ پارٹیوں کو اس بارے میں احساس تب ہوگا جب کوئی بھی شخص کسی بھی پارٹی کا رکن بننے کی غرض سے پارٹی کے رہنما سے "عقیدت" کی بجائے پارٹی کے منشور اور اس کی عمومی کارکردگی کو آنکے بغیر رکنیت نہیں لے گا۔
انتخابات کو سرمایہ کاری جان کر اخراجات کرنا اور رکن اسمبلی بننے کے بعد ناجائز طریقوں سے دولت کمانا بھی مالی بدعنوانی ہے۔ اگر گرفتار کرنے پر آئیں تو شاید ہی کوئی رکن اسمبلی جیل جانے سے بچ پائے۔ مثال کے طور ایک زمانے میں ایم کیو ایم سے واقعی درمیانے طبقے کے لوگ آئے تھے تو کیا مصطفی کمال اور دوسرے اب اتنے ہی "غریب " ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ جب تک سوچ تبدیل نہیں کی جاتی تب تک اگر کسی طریقے سے نچلے طبقوں کے لوگ بھی اسمبلی میں پہنچ گئے تو وہ بھی اختیار ملنے پر اپنے حالات بہتر بنانے کی تگ و دو ضرور کریں گے، یہ انسانی فطرت ہے مگر جب مسلسل انتخابات کے بعد لوگوں کو شعور آتا چلا جائے گا تب اراکین اسمبلی مالی بدعنوانیاں کرنے سے بھی باز آ جائیں گے۔
ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ ابھی تو سیاسی اخلاقیات بھی تقریباََ صفر کی سطح پر ہے، جو جمہوریت کا بنیادیعنصر ہے۔ سوشل میڈیا پر کوئی کسی پارٹی کے پوسٹر کتوں اور گدھوں کو کھاتا اتارتا دکھا کر خوش ہوتا ہے یہ جانے بن کہ وہ بیچارے جانور اتنے بھوکے ہیں کہ کاغذ تک کھا لیتے ہیں اور کوئی دوسرا کمسن لڑکوں سے دوسروں کے پوسٹروں پر بنی ان کے رہنما کی تصویر پر جوتیاں مروا کر اپنی بھڑاس نکال رہا ہے۔ جوتیاں مارنے والے بچے ساتھ ساتھ فحش گالیاں بھی بکتے جاتے ہیں، ایسا کروانے والے بچوں میں نفرت اور تشدد کو فروغ دے رہے ہیں۔
ہمارے ہاں چونکہ سرمایہ داری بھی اپنی بگڑی ہوئی شکل میں موجود ہے اس لیے فی الحال سرمایہ دارانہ جمہوریت کا چہرا ابھی بگڑا ہوا ہے مگر یہ جعلی جمہوریت کا چہرہ نہیں ہے بس اس چہرے کی آرایش کرنا درکار ہے۔