Bahishti Pan
بہشتی پن

روس کے مفتی اعظم طلگت (طلعت) تاج الدین نے گذشتہ دنوں دہشت گرد پیدا کرنے والے امریکہ اور دیگر مغربی ملکوں کی مذمت کرتے ہوئے ایک واقعہ سنایا، "میرے پاس کچھ عرصہ بیشتر ایک شخص کے ماں باپ آئے جنہوں نے بتایا کہ ان کے بیٹے نے اعلٰی تعلیم کی دو اسناد حاصل کی ہوئی ہیں۔ شادی شدہ ہے اس کے دو چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ استراحت کرنے کا کہہ کر ترکی گیا اور پھر کوئی خبر نہ دی کہ کہاں ہے۔ بہت عرصے بعد جب رابطہ کیا تو کہا کہ پریشان مت ہوں۔ ہم یہاں شام میں جنگ لڑ رہے ہیں۔ مر گئے تو بہشت میں جائیں گے"۔
اس پر مفتی اعظم نے کہا، "انہیں کیسے معلوم ہے کہ وہ بہشت میں جائیں گے؟ محمد ﷺ نے تو صرف دس افراد (عشرہ مبشرہ) کو جنت میں جانے کی خوش خبری دی تھی۔ بات ظاہر ہے بالکل درست ہے، جہاں تک تعلق ہے باطل کے خلاف لڑتے ہوئے مرنے سے درجہ شہادت پانے کا، اس کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ واضح ہو کسی قوت کا باطل ہونا کس نے اور کن وجوہات کی بنیاد پر طے کیا؟ باطل کے خلاف لڑنے یعنی جہاد کرنے جانے والے کی سوچ کیا تھی؟ کیا وہ اپنی شجاعت منوانا چاہتا تھا؟ کیا اسے مال غنیمت کے حصول کی طمع تو نہیں تھی؟ کیا اس نے مرنے سے پہلے بوڑھوں، بچوں، عورتوں، نہتے لوگوں کو نشانہ تو نہیں بنایا تھا؟ کیا اس نے مرنے سے پہلے سفّاکی کا مظاہرہ تو نہیں کیا تھا؟ کیا اس نے کسی کی عبادت گاہ کو نقصان تو نہیں پہنچایا تھا؟ کیا اس نے کسی کی کھڑی فصل تو تباہ نہیں کی تھی؟ یہ وہ اعمال و خیالات ہیں جن کے بارے میں حضور صلعم نے اللہ کے حکم سے طے کر دیا تھا۔ پھر بھی معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا تھا کہ کسے درجہ شہادت ملتا ہے یہ اللہ جانتا ہے۔
مفتی اعظم کے بیان کردہ واقعے کے تناظر میں یہ بات بھی ذہن سے محو نہیں ہونی چاہیے کہ بہشت نشیں ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ روز قیامت ہوگا۔ قیامت سے پہلے مذکور شخص کے دو چھوٹے بچوں، اس کی جوان بیوی اور بوڑھے والدین کو اپنی اپنی زندگیاں بسر کرنی ہیں جن کو دنیا کے جہنم میں تنہا چھور کر یہ شخص اپنی غرض یعنی بہشت نشینی کی خاطر خود غرضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان تمام فرائض پر تھوک کر چلا گیا جو احکام الٰہی کی رو سے اسے سرانجام دینے تھے یعنی بچوں کی تربیت و پرورش، بیوی کو مالی و ذہنی تحفظ فراہم کرنا اور بوڑھے والدین کی اعانت و دیکھ بھال۔
لوگوں کی دین بارے لاعلمی کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ لوگ جنہیں جنگ کی خاطر ایندھن چاہیے، لوگوں میں لڑنے کی جانب رغبت پیدا کرنے کی غرض سے مذہب اور مال دونوں کا ستعمال کرتے ہیں۔ مفتی اعظم روس نے ہی فرمایا کہ داعش والے شام میں لڑنے والوں کو دوہزار ڈالر ماہانہ تک بطور مشاہرہ دے رہے ہیں۔ افغانستان میں طالبان کا داعش کی جانب رجوع بھی بہتر معاوضے کے باعث ہے کیونکہ وہ طالبان کی نسبت اپنے جنگجووں کو ماہانہ دو تین گنا زیادہ ادائیگی کرتے ہیں۔
نوجوانوں اور بڑی عمر کے مردوں کو اپنے جال میں پھنسانے پر ہی بس نہیں۔ انٹرنیٹ پر وڈیوز بھری پڑی ہیں جن میں مثال کے طور پر ایک ڈھائی تین سال کے بچے کے ماتھے پر کلمہ طیبہ کی پٹی بندھی ہے اور وہ اپنی توتلی زبان میں اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر ایک بڑے سے چھرے کے ساتھ اپنے قد سے بڑے کھلونا ریچھ کا سر تن سے جدا کر رہا ہے اور عقب سے اس کو ہلا شیری دینے کی آوازیں آ رہی ہیں۔ یا ایک چھ سات سال کا بچہ خار دار تاروں کی ہر طرف تنی باڑ کے نیچے سے اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے ہوئے رینگ رہا ہے اور اس کے گرد گولیاں برسائی جا رہی ہیں۔ دس دس بارہ بارہ برسوں کے بچوں کو اصلی کلاشنیکوو رائفلوں کے ساتھ فائرنگ کی تربیت دی جا رہی ہے۔
یہ کیا ہو رہا ہے؟ کیا ان لوگوں نے اسلام کو بدنام کرنے کی قسم کھائی ہوئی ہے؟ ایسے لوگوں کی مالی اور ہتھیاروں کے حوالے سے معاونت کرنے والے عرب ملک ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ کیا سیاست میں مذہب کا اس طرح بے محابا اور متشددانہ استعمال کسی بھی طرح جائز قرار پا سکتا ہے؟ سفاکی، بلاوجہ جدال، قتل و غارت، وحشت و درندگی، تباہی و بربادی کرنے کا کوئی جواز نہیں ہو سکتا۔ یہ محض دیوانگی ہے یا کسی کے مقاصد کی تکمیل کا عسکری ڈرامہ۔ یہی وجہ ہے کہ روس کے ذرائع ابلاغ عامہ ایسی جنگوں کے لیے لفظ "جنگی تھیٹر" استعمال کرنے لگے ہیں۔ جنگی تھیٹر کے عقبی دروازے سے بہشت میں داخل ہونا شاید ممکن نہ ہوتا ہو البتہ بہشتی پن کا ڈرامہ ضرور جاری رکھا جا سکتا ہے۔

