Saturday, 07 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mojahid Mirza
  4. Baat Kehne Ki Nahi

Baat Kehne Ki Nahi

بات کہنے کی نہیں

کیا ایسی کوئی بات ہوتی ہے جو کہنے کی نہ ہوتی ہو؟ اگر ایسا ہے تو وہ پھر بات ہی کیا؟ نہ کہے جانے والی خبر ہو سکتی ہے، راز ہو سکتا ہے، سازش ہو سکتی ہے مگر بات نہیں ہو سکتی۔ بات تو ہوتی ہی وہ ہے جو کہی جائے ویسے ہی جیسے وہ افواہ بھلا کیسے افواہ ہوئی جو پھیلائی ہی نہ جا سکے۔

گذشتہ چند برسوں سے پاکستان کے نوزائیدہ ٹی وی چینلوں پر ایک از کار رفتہ طرز ابلاغ موسوم بہ "ٹاک شوز" دیکھ رہا ہوں۔ ازکار رفتہ، اس لیے کہ عالمی سطح کے اور معیاری چینلوں میں، وہ نہ کہی جانے والی باتیں جنہیں پاکستان کے نوزائیدہ الیکٹرونک میڈیا میں جھگڑے، اختلاف، سب و شتم تا حتٰی سرپھٹول کے لیے اگلوانے کی کوشش کی جاتی ہے، اب خبروں میں ہی مختصر انٹرویوز میں دکھائے جانے کا رواج ہو چکا ہے۔ یا پھر موضوعاتی خصوصی انٹرویوز ہوتے ہیں اور یا ان باتوں کو طنزیہ مزاحیہ شوز میں سنجیدگی کا تڑکا لگائے جانے کی خاطر استعمال کیا جاتا ہے۔ بہت ہوگیا تو ایک آدھ مشترکہ سیاسی ٹاک شو دکھانے پر اکتفا کر لیا جاتا ہے۔

پاکستان کے ٹاک شوز کی افادیت، نقائص، نقصانات کی تو بات ہی کیا کرنی کیونکہ سبھی دیکھنے سننے والے سیانے لوگ ہیں لیکن ایک بات جو مجھے چبھتی ہے وہ آزادی صحافت کے بارے میں صحافیوں، تجزیہ کاروں اور اینکر پرسنز کے متنوع رویے ہیں۔ آج اگر منہاج برنا یا ضمیر نیازی زندہ ہوتے تو ان کا اپنا رویہ کیا ہوتا اس بارے میں شاید ہی کسی کو شک ہو کہ وہ آزادی صحافت کو مجرد معانی میں نہیں بلکہ کلاسیکی معانی میں دیکھتے۔ پر آج آزادی صحافت کے ضمن میں جو انداز اور اطوار دیکھنے میں آ رہے ہیں وہ بہت نرالے ہیں۔

ہمیں عوام النّاس کو میڈیا سے استفادہ کرنے کی جانب راغب کرنا ہوگا نہ کہ میڈیا سے بھی اسی طرح متنفر جس طرح آج لوگ سیاست اور سیاست دانوں سے متنفر ہوئے دکھائی دیتے ہیں اگرچہ ان کی تمام امید بھی انہیں سیاستدانوں کے ساتھ وابستہ لگتی ہے۔ میڈیا کے "ٹاک شوز" سے بھی لوگ اوبھ چکے ہیں لیکن انہیں توقعات بھی میڈیا سے ہی ہیں۔

عوام کی خواہش یہ ہوگی کہ سیاست بدلے، سیاست دان اپنا رویہ بدلیں، میڈیا بدلے اور میڈیا کے ساتھ وابستہ لوگ اپنی طرز تحریر و تقریر کو بہتر بنائیں۔ ان کے پاس نہ کہنے والی کوئی بات نہ ہو، سبھی باتیں ہوں جو کہی جا سکیں۔ انہیں باتوں کو سن کر سیاستدان بدلیں، پارلیمانوں کی بنت بدلے، قوانین بدلیں، نظام بدلے اور ملک ایسا ملک بن جائے جس میں ہر شخص اپنے دل میں آئی بات کو کسی اور کا دل توڑے بغیر یا کسی پر بے بنیاد الزام لگائے اور کیچڑ اچھالے بغیر کہنے کو آزاد ہو۔

Check Also

Naukri Aur Karobar, Do Aham Faisle

By Sheraz Ishfaq