Jadeed Siyasi Aur Muashi Nizam Ki Ilmi Toseet (2)
جدید سیاسی اور معاشی نظام کی علمی توسیط(2)

میں گزارش یہ کرنا چاہتا ہوں کہ مابعد استعمار ہم نے علم کے وہ tools (علوم آلیہ) ہی ضائع کر دیے جو مذہبی مراد و معانی اور افعال و اعمال کی preservation کے لیے وضع ہوئے تھے اور جو روایت سے ساتھ زندہ تعلق کے لیے ضروری تھے۔ نیچر اور دنیا ہماری معقولات کا سرے سے موضوع ہی نہیں تھے، جبکہ جدید معقولات کا موضوع ہی طبائع (natural world) اور دنیا (تاریخ+معیشت+معاشرہ) ہیں۔ ان دونوں میں مشترک چیز ثقہ بنیادوں پر عقل کی فعلیت ہے۔ مذہبی معقولات میں عقل مخاطبِ وحی ہونے کی حیثیت سے اپنی وجودی ذمہ داری کو نبھا رہی ہے جبکہ جدید معقولات میں عقل Faustian bargain کی تفصیلات سامنے لا رہی ہے، یعنی جدید معقولات یہ ظاہر کرتی ہیں کہ انکارِ حق کے بعد علم کیا ہوتا ہے اور کیسا ہوتا ہے۔
ہم نے علوم آلیہ، اصولِ دین اور اصول فقہ کے جنازے ابھی تک سر پہ دھرے ہوئے ہیں اور نہیں معلوم کہ ان کی ذہن میں تخم ریزی کیسے ہوگی اور یہ بھی نہیں معلوم کہ انھیں دفن کرنا ہے یا ابھی اٹھائے رکھنا ہے۔ پھر ہم ان tools کی آگاہی بھی فراہم نہ کر سکے جو تحریک تنویر نے نئے معنی اور نئے عمل کی تشکیل کے لیے پیدا کیے تھے اور جن کے ذریعے سے جدیدیت اور اس کے مظاہر ہمارے لیے قابلِ ادراک، قابلِ فہم اور قابلِ اظہار ہو سکتے تھے۔ یہی معاملہ جدید ریاست کا ہے کہ یہ ہمارے نظری، فکری اور علمی ادراک ہی میں نہیں ہے تو اس کے وسائل اظہار کہاں سے آئیں گے؟
عصر حاضر میں سیاسی طاقت، سرمائے پر گفتگو کے دستیاب تناظر صرف تین ہیں: نظریاتی، سیاسی اور اخلاقی۔ سیاسی طاقت، سرمائے پر علمی گفتگو میں یہ تینوں تناظر کئی پہلوؤں سے باہم overlapping ہیں اور اپنی نوعیت میں بالکل جدید ہیں۔ جدید سیاسی اور معاشی مباحث دینی تعلیمات سے قطعی مختلف ہیں اور ان کو کسی بھی علمی اصول اور موقف کے تحت یکجا نہیں کیا جا سکتا۔ جدید سیاسی اور معاشی مباحث تاریخ اور معاشرے میں کچھ واقعاتی چیزوں کو زیربحث لاتے ہیں، جبکہ دینی تعلیمات کا ان واقعاتی حقائق سے کوئی دور دور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔
دینی تعلیمات احکام و اقدار کے مجموعے پر مشتمل ہیں اور جن کے مخاطب براہ راست اولوالامر یا ملوک ہیں۔ دینی تعلیمات اپنے مخاطب سے نئی سیاسی، معاشی اور سماجی حقیقت پیدا کرنے کا مطالبہ رکھتی ہیں۔ یہ تعلیمات ان تاریخی حقائق (facts) کے تابع نہیں ہیں، یعنی یہ دینی تعلیمات (اولوالامر کے لیے) منطوق تو ہیں لیکن ان کا کوئی مدلول تاریخ میں سرے سے موجود ہی نہیں ہے اور ان تعلیمات میں مخاطب سے جو مطالبہ کیا جا رہا ہے وہ بعینہٖ یہی تو ہے کہ وہ ان تعلیمات کو تاریخ میں ایک حقیقت (fact) اور واقعے کے طور پر قائم کرکے دکھائے۔
جبکہ جدید سیاسی علوم تاریخ اور معاشرے میں پہلے سے موجود طاقت اور سرمائے کے حقائق کو زیربحث لاتے ہیں اور سیاسی جدوجہد سے ان کے رخ کو متعین کرنے اور کچھ خاص مقاصد کی طرف پیشرفت کا داعیہ رکھتے ہیں۔ یہ "خاص مقاصد" سیاسی نظریات کی نئی اور بدلتی ہوئی تشکیلات سے متعین کیے جاتے ہیں۔ اس معنی میں اسلامی معاشروں میں politics کبھی موجود ہی نہیں رہی۔ جدید معاشروں میں طاقت اور سرمائے کی حرکیات بالکل نئی چیز ہے اور power politics اسی حرکیات سے پیدا ہوتی ہے۔
جدید عہد میں سیاسی طاقت اور سرمائے پر گفتگو کرتے ہوئے جو چیز سب سے زیادہ اہم ہے وہ the political کی گفتگو ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ نظریے (ideology) اور اخلاقیات (ethics) سے ورا، معاشرے میں موجود اور قائم سیاسی طاقت اور سرمائے کی ہیئتوں کو موضوع بنایا جائے اور ان کی تجزیاتی تفہیم حاصل کی جائے اور یہ ذمہ داری اس علم کی ہے جسے political thought یا political science کے زیر عنوان تشکیل دیا گیا ہے۔ سادہ لفظوں میں جدید سیاسی علوم اور فکر تاریخ اور معاشرے میں پہلے سے ایک موجود و معلوم کے تابع ہیں۔
اسلامی معاشروں کی سیاسی اور معاشی اجتماعیت کے حوالے سے دین کی تعلیمات ہمیشہ موجود رہی ہیں اور ان معاشروں میں شریعت اور فقہ کی تعلیمات ہی فرمانروائی کی بنیاد رہی ہیں۔ لیکن ہماری تہذیبی روایت میں سیاسی علوم یا سیاسی فکر نام کی کوئی چیز موجود ہی نہیں ہے کیونکہ یہ مطلوب ہی نہیں تھی۔ میری گزارش یہ ہے کہ سیاسی گفتگو سے پہلے نظریاتی اور اخلاقی گفتگو نہ صرف بے معنی ہے بلکہ مضر بھی ہے۔ "سیاسی" سے مراد یہ ہے کہ جدید عہد میں نئی معاشی قوتوں، سیاسی اداروں اور ٹکنالوجی سے انسانی اجتماعی زندگی کی ہیئت مکمل طور پر بدل گئی ہے اور ان کی بابت علم بھی ایک نیا علم ہے۔
ان نئی ہیئتوں میں سب سے بنیادی نیا معاشی پیداواری عمل ہے اور پھر جدید ریاست ہے۔ ان دونوں کی ہیئت تنظیمی اور ٹکنالوجیائی ہے جو بالکل ایک نئی چیز ہے۔ ہمارے ہاں سیاسی اور معاشی مباحث کی پستی اس قدر ہے کہ کوئی بات کہی ہی نہیں جا سکتی۔ ہمارے نظریاتی اور اخلاقی مباحث جدید سیاسی اور معاشی طاقت کے ہرکارے ہیں اور دین و دنیا دونوں کا ستیاناس ہوگیا ہے۔ اگر ایک پست مثال دی جائے تو یہ ہے کہ فرض کیا کار ایک اجتماعی ہیئت ہے تو اس کا رنگ نظریاتی پہلو ہے اور اس کی سیٹوں کا آرام دہ ہونا یا نہ ہونا اخلاقی پہلو ہے اور کار بطور ایک ٹکنالوجیائی ہیئت کے کیا ہے یہ ایک "علمی" موضوع ہے اور اس سیاسی علم و فکر کا ہمارے ہاں نشان بھی نہیں ہے۔
یہ پست مثال میں نے بات سمجھانے کے لیے عرض کی ہے۔ ہمارے ہاں کار کے رنگ اور سیٹوں کی آرام دہی پر بہت گفتگو ہے لیکن طاقت اور معاش کے استحصالی اداروں پر کوئی کلام کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ جدید ریاست یا جدید معاشی نظام کو جب تک براہ راست علمی موضوع بنا کر یہ طے نہ کیا جائے کہ وہ کیا ہیں، اس وقت تک ان کے نظریاتی اور اخلاقی پہلوؤں پر کوئی گفتگو نہیں ہو سکتی اور ان کو موضوع بنانا ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ ہمارے روایتی معقولات کے پاس ایسے کوئی tools ہی نہیں ہیں جو ان کے تجزیے اور تفہیم میں معاون ہوں اور جدید علمی tools کا ہمارے ہاں کوئی شعور ہی موجود نہیں ہے اور اسی محل پر ہمارے سیاسی ملاؤں اور اہلِ علم کی کرامات ظاہر ہوتی ہیں اور ان کے کلام فرماتے ہی ہر وہ چیز جو استعمار نے ہمارے ہاں قائم کی ہے اسلامی ہوتی چلی جاتی ہے اور یہ اعلان کرنا ہی ہمارا منتہائے کلام ہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جدید ریاست پر گفتگو کے لیے کون سے ذرائع ادراک اور وسائل اظہار استعمال میں لائے جا سکتے ہیں؟ جدید ریاست سیاسی طاقت کی قطعی نئی تشکیل ہے جس کی کوئی نظیر ماقبل جدیدیت عہد میں ہے ہی نہیں۔ دینی تناظر میں اس تاریخی حقیقت کی تفہیم کے لیے ایک کتاب بہت مفید ہو سکتی ہے۔ اس کتاب کا نام ہے:
The Time of the Bedouin
اور اس کے مصنف ہیں شیخ عبدالقادر الصوفیؒ۔ اگر ہمارے نوجوان اہل علم اس کتاب کے مشمولات کی تفہیم پر کچھ محنت کریں تو امید ہے کہ عصر حاضر کو سمجھنے میں پیش رفت ہو سکتی ہے۔
[نوٹ: اس تحریر کا مقصد ڈاکٹر صاحب کے اٹھائے گئے سوال کی تحدیدات کے اندر رہتے ہوئے بات کو آگے بڑھانا ہے۔ کوئی بحث شروع کرنا مقصد نہیں۔ ]

