Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mohammad Asif Usman
  4. Taqdeer, Naseeb Aur Qismat Ka Mafhoom Durust Kijiye (2)

Taqdeer, Naseeb Aur Qismat Ka Mafhoom Durust Kijiye (2)

تقدیر، نصیب اور قسمت کا مفہوم درست کیجئے (2)

"لا يرد القدر إلا الدعاء، ولا يزيد في العمر إلا البر، وإن الرجل ليحرم الرزق بالذنب يصيبه"

ترجمہ: تقدیر کو دعا ٹال سکتی ہے، نیکی عمر میں اضافہ کر سکتی ہے، گناہ انسان کو رزق سے محروم کر سکتا ہے۔

"من أحب أن يبسط له في رزقه، وينسأ له في أثره، فليصل رحمه"

ترجمہ: جو شخص رزق میں کشادگی اور اپنے نام کو زندہ رکھنا چاہتا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ صلہ رحمی کرے۔

"إن الصدقة والصلة تعمران الديار وتزيدان في الأعمار"

ترجمہ: بیشک صدقہ اور صلہ رحمی شہروں کو آباد اور عمروں میں اضافہ کرتے ہیں۔

حضرت عمرؓ کے حوالہ سے آتا ہےکہ انہوں نے سورہ رعد کی آیت 39 (ام الکتاب یعنی تقدیر میں سے اللہ تعالیٰ جسے چاہتے ہیں، ثابت رکھتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں مٹا دیتے ہیں) کے پس منظر میں کعبہ کے طواف کے دوران دعا فرمائی، کہ اے اللہ! اگر تو نے تقدیر میں میرے حق میں سعادت لکھی ہے تو اسے برقرار رکھئے اور اگر میرے حق میں گناہ اور بدبختی لکھی ہے تو اسے مٹا دیجئے اور میرے حق میں سعادت لکھ دیجئے۔

اسی طرح جب حضرت عمرؓ زخمی ہوئے تو حضرت کعب نے فرمایا کہ اگر حضرت عمرؓ "اللہ تعالیٰ" سے دعا کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی عمر بڑھا دیں۔ لوگوں نے آیت قرآنی "اجل اک گھڑی آگے پیچھے نہیں ہوتی" (نوح: 4) کی بنیاد پر اعتراض کیا کہ یہ کیسے ممکن ہے؟ تو حضرت کعب نے فرمایا کہ قرآن مجید میں یہ بھی آیا ہےکہ

"وَمَا يُعَمَّرُ مِنْ مُعَمَّرٍ وَلا يُنْقَصُ مِنْ عُمُرِهِ إِلاَّ فِي كِتَابٍ(سورہ فاطر: 11)"

ترجمہ: کسی شخص کی عمر میں جو اضافہ کیا جاتا ہے یا کمی کی جاتی ہے تو یہ بھی کتاب یعنی تقدیر میں لکھا ہوا ہے یعنی بعض اعمال کی وجہ سے عمر میں اضافہ یا کمی ممکن ہے۔

قارئین! روایات میں موجود یہ تعارض متقاضی ہے کہ دونوں قسم کی نصوص کے ایسے معانی متعین کی جائیں، جن سے دونوں میں تطبیق، جمع اور موافقت پیدا ہو جائے۔ اس تطبیق کا حاصل یہ ہے کہ تقدیر دو قسم کی ہے، مبرم یا غیر مشروط تقدیر اور معلق یعنی کنڈیشنل (اور مشروط) تقدیر۔ "مبرم" سے مراد کسی شخص کے متعلق قدرت کے فائنل فیصلے ہیں، جو کسی بھی صورت میں تبدیل نہیں ہوتے، اور "تقدیر معلق" کسی سبب، ریزن، علت، یا کسی بھی عمل سے مشروط قدرت کے فیصلے ہیں، جو ان اسباب و علل اور اعمال کو اختیار کرنے پر ہی وقوع پذیر ہوتے ہیں۔

بطورِ مثال اس کی ایک صورت یہ ہے کہ کسی بھی شخص کی عمر کے حوالہ سے تقدیر میں دو باتیں لکھی جاتی ہیں۔ ایک فائنل فیصلہ لکھ دیا جاتا ہے کہ فلاں بن فلاں کی فائنل عمر اسی (80) سال ہوگی، اور دوسرا مشروط فیصلہ کہ اگر اس شخص نے فلاں موقع پر حج، عمرہ، صلہ رحمی، صدقہ نہ کیا، فلاں بیماری کی صورت میں احتیاط یا فلاں موقع پر فلاں سبب اختیار نہ کیا تو پھر اس کی عمر ساٹھ (60) سال ہے، اب جو شخص لکھے ہوئے مواقع پر ان اسباب کو اختیار کرے گا تو وہ اپنی عمر سے متعلق قدرت کے فائنل فیصلہ یعنی اسی (80) سال تک پہنچے گا، اور اگر وہ ان اسباب کو اختیار نہیں کرتا تو وہ فائنل فیصلہ سے پہلے ہی راہی عدم ہو جائے گا۔

اسے ایک مثال سے بآسانی سمجھا جا سکتا ہے، کوئی شخص میڈیکل سٹور سے 2023ء میں ایک سیرپ خریدتا ہے، اس پر ایکسپائری ڈیٹ جنوری 2025ء درج ہے۔ ساتھ لکھا ہوا ہے کہ دھوپ اور نمی سے بچائیں۔ اب اگر وہ شخص اس سیرپ کو دھوپ اور نمی سے نہیں بچاتا تو ظاہر ہے کہ وہ سیرپ اپنی مقررہ تاریخ جنوری 2025ء سے پہلے ہی ایکسپائر ہو جائے گا، لیکن اگر وہ لکھی ہوئی شرائط پوری کرتا ہے تو پھر وہ سیرپ اپنی فائنل ایکسپائری تاریخ یعنی جنوری 2025ء تک تو پہنچ جائے گا مگر اس فائنل ایکسپائری تاریخ کے بعد کسی طور استعمال کے قابل نہیں رہے گا۔

بالکل اسی طرح تقدیر مبرم ہر انسان کی فائنل ایکسپائری تاریخ جبکہ تقدیر معلق اس کی مشروط ایکسپائری ڈیٹ ہے، تقدیر معلق میں مذکور شرائط کو اگر کوئی شخص پورا کرتا ہے تو وہ تقدیر مبرم میں لکھی ہوئی اپنی فائنل عمر پوری کر لے گا اور اگر وہ ان شرائط کو پورا نہیں کرتا تو پھر وہ اپنی فائنل عمر کے ہندسے تک نہیں پہنچ سکے گا۔ مشہور ہے کہ شام میں طاعون کی وباء کے دوران جب حضرت عمرؓ نے مدینہ واپس مراجعت کا فیصلہ کیا، تو سالارِ لشکر، امین الامۃ حضرت ابوعبیدہ بن الجراح نے اعتراض کیا کہ آپ اللہ کی تقدیر سے راہِ فرار اختیار کر رہے ہیں، کیا آپ اس طرح موت سے بچ جائیں گے؟

ان کا مطلب یہ تھا کہ آپ کو طاعون زدہ علاقہ کا وزٹ کرنا چاہیے۔ تو حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ہاں! ہم اللہ کی ایک تقدیر سے دوسری تقدیر کی طرف بھاگ رہے ہیں، جیسے آپ اونٹ چرانے کے لیے ایک ایسے میدان میں ٹھہرے ہوئے ہوں، جس کے ایک طرف سبزہ زار اور دوسری طرف قحط زدہ علاقہ ہو۔ اب آپ سبزہ زار میں اونٹوں کو چراتے ہیں تو یہ بھی تقدیر الٰہی میں داخل ہے اور اگر قحط زدہ علاقہ میں چراتے ہیں تو یہ بھی تقدیر الٰہی میں داخل ہے۔ مگر آپ کو اختیار ہے، دو میں سے جو تقدیر بھی اختیار کرنا چاہیں کر لیں۔

قارئین! مختصر یہ کہ ہر انسان کے حوالہ سے تقدیر مبرم میں کچھ حتمی فیصلے ہو چکے ہیں، اور کچھ مشروط فیصلے تقدیر معلق کی صورت میں لکھےجا چکے ہیں، ان مشروط فیصلوں کا تقاضہ ہے کہ انسان ہر سبب، ہر عمل، ہر علت اور ہر پرہیز کو اختیار کرے، کیونکہ اس کے یہ اعمال تقدیر معلق کی صورت میں لکھے ہوئے اس کے نصیب، مقدر، تقدیر اور قسمت کو تبدیل کر سکتے ہیں۔

حضور ﷺ نے صحابہ ؓم کے سامنے جب تقدیر کی حقیقت بیان فرمائی تو صحابہ نے فرمایا تھا: کیا ہم عمل کرنا چھوڑ دیں؟ تو آپ ﷺ نے بھی یہی فرمایا: نہیں تم عمل کرتے رہو، ہر آدمی کا عمل اس کو فائدہ پہنچائے گا۔ ماہر نفسیات رچرڈ وائزمین تو کہتے ہیں کہ، لوگ اپنی اچھی یا بری قسمت خود بناتے ہیں۔ ان کے مطابق وہی لوگ خوش قسمت ہوتے ہیں، جو نئے مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں، کامیابی کی امید رکھتے ہیں اور ہمیشہ مثبت رہتے ہیں۔ شاعر مشرق ڈاکٹر محمد اقبال بھی قوموں کے فیصلے افراد کے ہاتھوں میں قرار دیتے ہیں۔ اور یہ بھی تقدیر معلق (کنڈیشنل) یا مشروط تقدیر کی ہی اک درست تعبیر ہے۔

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ۔

Check Also

Aaj Soop Nahi Peena?

By Syed Mehdi Bukhari