Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mohammad Asif Usman
  4. Mazhabi Jamaton Ka Intikhabi Mustaqbil?

Mazhabi Jamaton Ka Intikhabi Mustaqbil?

مذہبی جماعتوں کا انتخابی مستقبل؟

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہےکہ اسلام پاکستانی مسلمانوں کی شناخت کا اہم حصہ ہےاور یہ بھی حقیقت ہےکہ ستر سالوں میں کوئی بھی مذہبی جماعت اس حمایت کو ووٹ کی شکل نہیں دے پائی، بعض علاقوں میں مذہبی جماعتوں کو جزوی کامیابی ملتی ہے، یہ مختلف اتحادوں کا حصہ بنتی ہیں، ملکی سیاست میں پریشر گروپس کا کام کرتی ہیں، حکومتی فیصلوں پر اثرانداز ہوتی ہیں، مگریہ آج تک مسلم لیگ، پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی کی طرح مقبول عام عوامی پارٹیاں بننے میں ناکام رہی ہیں۔

پچھلے تمام انتخابات میں مذہبی جماعتوں نےکبھی بھی 10 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل نہیں کیے، صرف سال 2002کے انتخابات میں چھے مذہبی جماعتوں کے اتحاد ایم ایم اے (متحدہ مجلس عمل) نے تقریبا ساڑھےگیارہ فیصد (33لاکھ سےزائد) ووٹ حاصل کیے اور وہ ملک کی چوتھی پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی، صوبہ خیبرپختونخواہ میں حکومت بنائی اور مولانا فضل الرحمن قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈربھی رہے۔

یہ اپنی نوعیت کی پہلی انتخابی کامیابی تھی، مگر یہی ایم ایم اے جس کی 2002 میں قومی اسمبلی میں 59 نشستیں تھیں، 2008ء کے انتخابات میں صرف 8 رہ گئیں، یہی حال تحریک لبیک پاکستان کا ہوا، جولائی 2018 کے انتخابات میں ٹی ایل پی نے انتخابی سیاست میں زبردست انٹری دی، اس نےقومی اسمبلی کے لیے 22 لاکھ ووٹ حاصل کیے، سندھ اسمبلی کی تین نشتوں پر کامیابی حاصل کی اور ملک کی پانچویں بڑی جماعت ٹھہری، مگر 2024ء تک یہ بھی اپنی سابقہ پوزیشن برقرارنہ رکھ پائی۔

2024ءکے الیکشن میں صرف جے یوآئی واحد مذہبی جماعت ہے جس نےسب سے زیادہ سات حلقوں میں کامیابی سمیٹی، سنی علماء کونسل (اہلسنت والجماعت) جھنگ کے شہری حلقہ سے پنجاب اسمبلی کی اپنی روایتی اور ناقابل شکست نشست ہارگئی، جماعت اسلامی جیسی منظم جماعت بھی پارلیمانی طور پر سکڑ کر رہ گئی۔

پنجاب انتہائی اہم اور فیصلہ کن الیکٹورل ایریا ہے، حکومت سازی کا راستہ یہیں سے ہو کر گزرتا ہے مگر مذہبی جماعتیں اب تک پنجاب میں اپنے قدم نہیں جماسکیں، باوجودیکہ پنجاب بالخصوص اس کے جنوبی علاقوں میں ان کا مضبوط ووٹ بنک موجود ہے، یہی وجہ ہےکہ تونسہ شریف سے جےیوآئی کے سابق امیر مفتی محمودؒ اور ٹکٹ ہولڈر میر بادشاہ قیصرانی، آزاد حیثیت میں حافظ طاہر قیصرانی، لودھراں سے جماعت اسلامی، جھنگ سے سنی علماء کونسل (اہلسنت والجماعت) کےلیڈران کامیاب ہوتے رہے ہیں، تاہم یہ کامیابی پنجاب جیسے صوبے میں بہت معمولی ہے۔ پھر عام مشاہدہ ہے کہ پنجاب کے مخصوص علاقوں کے علاوہ مذہبی جماعتیں خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں بہترپوزیشن میں ہوتی ہیں، مگر ان صوبوں سے بھی آخری تینوں انتخابات کے اشاریے زیادہ حوصلہ افزا نہیں تھے، کے پی کے میں (اےاین پی کے غیرمقبول ہونے سے)عوام کے پاس تحریک انصاف کے بعد"جےیوآئی" دوسرا آپشن تھی، مگر تینوں بار عوام نےجمعیت کے مقابلہ میں پی ٹی آئی پر اعتماد کیا۔

2002 میں مذہبی جماعتوں کے اتحاد کی کامیابی کی بڑی وجہ افغانستان پر امریکی حملہ، صوبے کا مذہبی پس منظر اور امریکہ مخالف جذبات تھے، اسی طرح ٹی ایل پی کی پہلےالیکشن میں خاطر خواہ کامیابی بھی عشق رسالت پرمبنی جذبات کی مرہون منت تھی۔ اسے مذہبی جماعتوں کی سیاسی حکمت عملی، منشور اور وژن پرعوام کے اعتماد کا کلی استعارہ نہیں کہا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ معروضی حالات یونہی نارملائز ہوئے ان جماعتوں کا ووٹ بنک اپنی روایتی پوزیشن پر واپس چلا گیا۔

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق مذہبی جماعتوں کی انتخابی کارکردگی میں بہتری کی کوئی امید نہیں ہے، زیادہ سے زیادہ مستقبل میں بھی ان کا یہی کردار رہے گا، بلکہ ہوسکتا ہےکہ آنے والے دنوں میں ان کی پوزیشن مزید کمزور ہوتی چلی جائے۔ کیا مذہبی جماعتوں کے ایسے انتخابی مستقبل کی کوئی امید ہےجس کے نتیجے میں یہ ریاست کا کنٹرول حاصل کرسکیں؟ مذہبی جماعتوں کے قائدین، ورکرز اور فالورز کے لیے اس سوال کا جواب تلاش کرنا بہت ضروری ہے۔

انڈیکٹرتویہی بتاتےہیں کہ مذہبی جماعتیں تاحال ووٹرزکادل جیتنےمیں کامیاب نہیں ہوپائیں، بعض لوگوں کاکہناہےکہ ووٹرکے خیال میں مذہبی لیڈرشپ جدید ریاست کو چلانے کے طریقوں اور اس کے مسائل سےہی نابلد ہے، یہ قیادت ایک مخصوص دائرہ میں رہ کرسوچتی اورپالیسی بناتی ہے، جبکہ نوجوان ووٹرنئےخیالات کےحامل ہیں اوروہ نظام ریاست میں بھی جدت چاہتےہیں، اس لیےمذہبی جماعتیں ان کےمائنڈسیٹ کواپیل نہیں کرتیں، جنونی مذہبی دھڑےابھی تک جمہوری نظام کےمخالف ہیں، جس کی وجہ سےمذہبی ووٹرزبشمول تبلیغی جماعت ابہام کاشکارہیں، نت نئی اسلامی پارٹیوں کی وجہ سےیہ ووٹ مزیدتقسیم کاشکارہورہاہے، مدارس کےفضلاء(ALUMNI)کی بڑی تعدادمذہبی قیادت پراعتمادسےگریزاں ہے، ایسےبھی ہیں جوعمران خان اورتحریک انصاف کوسپورٹ کررہے ہیں، اس پس منظرمیں مذہبی جماعتوں کاانتخابی مستقبل واقعی سوالیہ نشان ہے۔

ان جماعتوں کومذکورہ بالافیکٹرزپرفوری قابوپانےکی ضرورت ہے، اس کےعلاوہ انہیں اپنی صفوں، منصوبوں اورپالیسیوں میں جدت بھی لانی ہوگی، فی زمانہ سیاسی بیانیےانتخابی کامیابی کااہم ہتھیاربن چکےہیں، مگر2024ء کےانتخابات تک ان جماعتوں کابیانیہ روایتی ساتھاکہ "بےدینی پاکستانی عوام کابنیادی مسئلہ" ہے، امن وامان، معیشت وروزگار، جدیدتعلیم، صحت اورصفائی جیسی بنیادی ضروریات و مسائل ان کےانتخابی بیانیےکانمایاں حصہ نہیں تھے، حالانکہ ان مسائل کوانتخابی بیانیےکاحصہ بنانےاورپھراس نظریے، سوچ اوروژن کواپنےکرداروابلاغیات کےذریعےپبلک کےسامنےلائےبغیرمعاصرسیاسی پارٹیوں سےمقابلہ نہیں کیاجاسکتا۔

مذہبی ووٹرزمیں موجودفکری تضاددورکرکےیہ جماعتیں اپنےووٹ بنک میں اضافہ کرسکتی ہیں اس لیےبڑی جماعتوں بالخصوص جےیوآئی اورجماعت اسلامی کویہ ذمہ داری لینی چاہیےتاکہ انتخابی عمل میں جمہوری تصورات کوغیراسلامی بلکہ کفرقراردینےوالےعناصرکی حمایت بھی حاصل کی جاسکے، مدارس کےاساتذہ وطلباء اورعوامی خطباءکےلیےتربیتی ورکشاپس وسیمینارزاورسوشل پلیٹ فارمزکی مددسےیہ مسئلہ حل ہوسکتاہے۔

مسلم لیگ، پیپلزپارٹی اورتحریک انصاف جیسی بڑی سیاسی پارٹیوں میں انتخابی ٹکٹ صرف تنظیمی عہدیداروں میں نہیں بانٹےجاتے، بلکہ الیکٹ ایبلزکوبھی ٹکٹ لینےکی طرف مائل کیاجاتاہے، جہانگیرخان ترین کےمطابق پی ٹی آئی 2013ء کاانتخاب اس لیےہاری کہ وہ الیکٹ ایبلزکوٹکٹیں دینےمیں ناکام رہی تھی، مگرمذہبی جماعتوں میں عام طورپرتنظیمی نیٹ ورک سےمنسلک افرادہی انتخابی عمل میں اترتےہیں، الیکٹ ایبلزیاشخصی ووٹ بنک رکھنےوالےامیدواروں کوبطورپالیسی پارٹی ٹکٹ کےحصول کی طرف مائل نہیں کیاجاتا، پھرمذہبی جماعتوں کےامیدواروں کاعمومی مزاج یہ ہےکہ وہ انتخابات کےبعداپنےووٹرزسےانگیج نہیں رہتے، منتخب ارکان بھی اپنےحلقےکےمسائل کےحل میں دوسرےامیدواروں کی طرح متحرک نظرنہیں آتے، اس سےبھی پبلک اعتمادمیں کمی آتی ہے۔

آج کی نئی نسل مکمل ڈیجیٹل ہوچکی ہے، جس کی وجہ سےسیاسی جماعتوں کےسوشل میڈیاونگزانتخابی عمل کااہم حصہ بن گئےہیں، اس لیےمذہبی جماعتیں بھی اپنے سوشل میڈیاونگزکومنظم اورفعال کیےبغیرپیش قدمی نہیں کرسکتیں، بلکہ حالات کےتقاضےتواس سےآگےبڑھ کرکچھ غیرروایتی اقدامات کوبھی ضروری قراردیتےہیں، موجودہ حالات میں نوجوان ووٹرزکی حمایت فیصلہ کن بنتی جارہی ہے، جو پارٹی اپنےتنظیمی اورانتخابی عمل میں نوجوانوں کےلیے زیادہ سپیس پیداکرےگی، اسی کےلیےآگےبڑھناآسان ہوگا، اس لیےتنظیمی ڈھانچے، انتخابی ٹکٹس، مخصوص نشستوں اورسینیٹرشپ میں نوجوانوں کی شرکت یقینی بنانےکی پالیسی اب بہت اہم ہوگئی ہے۔ مذہبی جماعتوں نےاگران اقدامات کونظراندازکیےرکھاتوان کےلیےبہترانتخابی مستقبل کی طرف بڑھناواقعی مشکل سےمشکل ترہوتاجائےگا۔

Check Also

Bushra Bibi Hum Tumhare Sath Hain

By Gul Bakhshalvi