Almiya, Elamiya, Muzammat Aur Falasteen
المیہ، اعلامیہ، مذمت اور فلسطین
میں تو یہ سوچ سوچ کر پریشان ہوں کہ فلسطین کے نہتے، معصوم لوگوں پر ٹوٹنے والی قیامت اور مشرق وسطیٰ میں جنم لینے والے خوفناک المیے کا ازالہ اس اعلامیے سے ممکن ہو پائے گا؟ اور کیا ہمارے حکمران اسے اپنا بڑا کارنامہ سمجھتے ہیں یا پھر آنکھوں پر بندھی مفادات کی پٹی کی وجہ سے انہیں کچھ بھی نظر نہیں آتا؟
گزشتہ دنوں سعودی عرب کے شہر جده میں ہونے والی اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی کے وزرائے خارجہ کے غیر معمولی اجلاس میں اسرائیل کی غزہ پر بمباری کی مغربی ممالک کی حمایت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے 20 نکاتی اعلامیہ جاری کیا ہے۔ جس میں اسرائیل کی غیر انسانی جارحیت کو فوری طور پر روکنے کے لیے بین الاقوامی برادری سے اسرائیل کا محاسبہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اعلامیے کے مطابق اسلامی تعاون تنظیم نے غزہ میں اسرائیل کی جانب سے شہریوں کے خلاف جارحیت، بمباری، انہیں ختم کرنے کی دهمکیوں اور خوراک تک رسائی پر پابندی کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔
اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ نہتے معصوم شہریوں بچوں اور ہسپتالوں کو نشانہ بنانا بین الاقوامی جنگی قوانین کی خلاف ورزی ہے اور یہ جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔ جبکہ اعلامیے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے قابض اسرائیلی فورسز کے فلسطینیوں کے خلاف جنگی جرائم نہ رکوانے اور اپنی ذمہ داری پوری نہ کرنے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔
او آئی سی وزرائے خارجہ کا "غیر معمولی اجلاس" اور اعلامیہ اس وقت سامنے آیا جب فلسطین میں اسرائیل کی وحشت و بربریت اور درندگی کو 15 روز گزر چکے تھے۔ مگر یہ دردناک کہانی محض پندرہ دن، پندرہ ماہ یا پندرہ سال پر محیط نہیں بلکہ کئی دہائیوں سے فلسطین کے نہتے اور معصوم لوگوں کے ساتھ یہ گھناونا اور غیر انسانی کھیل کھیلا جارہا ہے۔ جبکہ حالیہ وحشیانہ کارروائی حماس کے اسرائیل کے خلاف 7 اکتوبر کے حملوں کو جواز بنا کر کی جارہی ہے۔ مگر اس میں دانستہ طور پر عام شہریوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔
غزہ شہر کو کھنڈر بنا دیا گیا ہے۔ ہر طرف آگ برود اور خون کی بو سے سانس لینا محال ہو چکاہے۔ مساجد، ہسپتال اور رہائشی علاقوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اسرائیل کی بربریت کا یہ عالم ہے کہ ہزاروں میزائل اور راکٹ داغے جارہے ہیں۔ 7 اکتوبر سے اب تک 5 ہزار سے زائد بے گناہ فلسطینی شہید جبکہ 15 ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ آنے والی خبروں کے مطابق گزشتہ شب اسرائیل نے تاریخ کی بدترین بمباری کی۔ جس کے نتیجے میں 4 سو سے زائد معصوم لوگ شہید ہو گئے جن میں 180 بچے شامل تھے۔ جبکہ اس تمام تر وحشیانہ کارروائی میں اب تک 2 ہزار سے زائد معصوم بچے شہید ہو چکے ہیں۔
دوسری طرف اسرائیل نے ایک بار پھر غزہ کو خالی کرنے کا الٹی میٹم دیا ہے خدشہ ہے کہ اس کی آڑ میں قافلوں کو نشانہ بنایا جائے گا کیونکہ اس سے قبل بھی ایسی بربریت کا مظاہرہ کر چکا ہے یہاں تک کہ گزشتہ شب پناہ گزینوں کے كیمپ پر بمباری کرکے معصوم لوگوں کو شہید کر چکا ہے۔ المیہ یہ ہے غزہ کی ناکہ بندی کی وجہ انسانی جان بچانے والی ادویات اور غذائی قلت پیدا ہوچکی ہے۔ خاص طور پر ایندھن کی کمی ایک بڑے انسانی المیے کا سبب بن رہی ہے۔ ادویات، ایندھن کی کمی کی وجہ سے مریضوں کا علاج ناممکن ہوتا جارہا ہے۔ جبکہ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ ایندھن اور دیگر امداد کسی صورت غزہ میں نہیں جانے دیں گے اس سے حماس کو طاقت ملے گی۔
سچ تو یہ ہے کہ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی آشیر باد سے فلسطینیوں کی نسل کشی کا سلسلہ خطرناک رخ اختیار کر چکا ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ امریکہ برطانیہ سمیت تمام مغربی ممالک کھل کر اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں۔ صرف حمایت ہی نہیں امداد بھی کی جارہی ہے۔ جبکہ دوسری طرف فلسطینی عوام کے ساتھ کون ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پندرہ روز بعد ہونے والے او آئی سی کے اجلاس میں بھی محض مذمت کی گئی ہے۔ اور حیرت تو اس بات پر ہے مطالبہ بھی اس عالمی برادری سے کیا گیا ہے جو نہ صرف اسرائیل کی سہولت کار ہے بلکہ اسی کی آشیر باد سے وہ فلسطینیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں اور پھر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیل کے خلاف روس کی قرارداد کو ویٹو کرنے والے بھی یہی ممالک تھے جن سے او آئی سی وزرائے خارجہ مداخلت کی اپیل کر رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ 56 اسلامی ممالک کے حکمرانوں کا کام محض مذمت کرنا ہے اور افسوس کا اظہار کرنا ہے اور کیا ڈیڑھ ارب مسلمان صرف بد دعائیں دینے کے لیے ہیں اور سوال تو یہ بھی ہے 39 ممالک پر مشتمل کثیر الملکی فوج کے مقاصد کیا تھے اور یہ کہ وہ کہاں ہے جس کا سربراہ ایک سابق آرمی چیف کو بنایا گیا تھا۔ کیا وہ کثیر الملکی فوج فلسطینیوں کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کر سکتی۔
یہ بات درست ہے کہ جنگیں مسائل کا حل نہیں ہوتیں مگر تمام تر مظالم برداشت کرتے رہنے سے بھی مسائل حل نہیں ہوتے اور پھر یہ جنگ تو نہیں یہ تو ظلم جبر وحشت بربریت اور درندگی ہے جس کا شکار فلسطین کے نہتے عوام ہیں۔ تو پھر سوال تو بنتا ہے کہ مغرب کی آشیر باد، اسرائیل کی ہٹ دھرمی اور امت مسلمہ کی بے حسی کے نتیجے میں فلسطین میں جنم لینے والے المیے کا ازالہ اس نحیف سے اعلامیے سے ممکن ہے جو مذمت سے شروع ہو کر اپیل پر ختم ہو جاتا ہے۔