Zohran Mamdani Aur Mustaqbil Ki Siasat
زہران ممدانی اور مستقبل کی سیاست
نیو یارک شہر میں زوہران ممدانی نے 10 لاکھ 36 ہزار ووٹ لے کر میئرشپ کا انتخاب جیت لیا ہے۔ اس نے 50 فیصد سے کچھ زیادہ پاپولر ووٹ بھی حاصل کیے۔ مگر یاد رہے کہ اسی کی پارٹی سے تعلق رکھنے والے مگر آزاد امیدوار نے اس کے تقریباً 8 لاکھ ووٹ بھی توڑے تھے۔ اس بے مثال جیت کے ساتھ یوگنڈا میں پیدا ہونے والا یہ 34 سالہ انڈین نژاد زوہران ممدانی نیو یارک کی تاریخ کا 111واں میئر منتخب ہوا ہے۔ ایسا میئر جو کھلے عام مسلمان ہے، سوشلسٹ ہے اور اسرائیلی لابی کا ناقد ہے۔
ان تمام نکات کے علاوہ، اس کامیابی سے پاکستانیوں کو اس مرحلے پر یہ سبق ضرور سیکھنا چاہیے کہ جمہوریت 250 سال تک مختلف نظریات، مختلف زبانوں اور مختلف قوموں کے لوگوں کو کامیابی سے اکٹھا رکھ سکتی ہے اور انہیں ترقی دے سکتی ہے، بشرطیکہ جمہوریت گراس روٹ لیول تک قائم ہو۔ اسی نظام میں ڈونلڈ ٹرمپ جیسا خود پسند ارب پتی بھی صدر بن سکتا ہے، دو بار بن سکتا ہے اور پھر اگر صرف ایک سال میں ہی لوگوں کو اپنی غلطی کا احساس ہو جائے تو اسی نظام میں اس کی طاقت بتدریج کم ہونا بھی شروع ہو سکتی ہے۔
اسی تناظر میں پاکستان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں جمہوری نظام تو ہے، مگر وہ ایک ہائبرڈ نظام میں ڈھل چکا ہے۔ پھر دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ کوئی بھی جماعت گراس روٹ لیول تک جمہوریت لے جانے کے لیے تیار نہیں۔ حالانکہ لوکل الیکشن ہی وہ نرسری ہوتے ہیں جہاں ووٹ دینے والوں اور ووٹ لینے والوں، دونوں، کی تربیت ہوتی ہے۔
امریکا میں لبرلز کی حد سے بڑھی ہوئی حماقتوں کا جواب بھی امریکی جمہوری نظام نے ہی دیا اور ڈونلڈ ٹرمپ کی شکل میں سزا دی اور پھر ٹرمپ کی حد سے بڑھی ہوئی ایکسٹریم رائٹ ونگ حکومت کا جواب بھی اسی نظام سے زوہران ممدانی کی شکل میں آیا۔ لہٰذا پاکستانیوں کے لیے سبق یہ ہے کہ ایک ہم آہنگ اور مضبوط نظام ہی وہ جگہ ہو سکتی ہے جہاں مجموعی طور پر مختلف قسم کے انسان، مختلف خیالات کے حامل لوگ خوشحال رہ سکیں۔ کسی ایک شخص، کسی ایک مولوی کی آمریت، یا کسی ایک مذہب، رنگ یا زبان کے لوگوں کا بغیر کسی اچھے نظام کے اکٹھا ہو جانا کوئی جادو نہیں جگا سکتا۔ اس کی کوئی ضمانت نہیں کہ لوگ کامیاب اور خوش رہیں گے۔ امریکی جمہوری نظام نے یہ جادو آپ کے سامنے دکھایا ہے۔
زوہران ممدانی کی جیت اس بات کی دلیل ہے کہ ایک آزاد لبرل جمہوریت میں باؤنس بیک کرنے کی کتنی صلاحیت ہوتی ہے۔ پچھلے ایک سال میں جب بھی کسی نے مجھ سے پوچھا کہ کیا امریکا ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت اور اس کے اقدامات کو دیکھتے ہوئے تباہی کی طرف جا رہا ہے، تو میرا جواب ہوتا تھا کہ امریکی جمہوریت بہت سخت جان ہے۔ اس میں یہ صلاحیت ہے کہ ٹرمپ جیسا کوئی بھی آ جائے، کسی ردِعمل میں وہ بہت زیادہ تبدیلی نہیں لا سکتا۔
زوہران ممدانی کی جیت ایک آزاد نظام کی جیت ہے، صرف ایک فرد کی نہیں۔ مگر یہ جیت اس بے ترتیب دنیا میں ایک نئی سمت کی طرف بھی اشارہ کر رہی ہے۔ ایسی سمت جس میں نیا آرڈر کب ترتیب پائے گا یہ تو معلوم نہیں، مگر ملینیلز اور جنریشن زی کی اکثریت کا رخ یہ انتخاب واضح کر رہا ہے۔ اس کے اشارے ہمیں نیو یارک کے انتخابات میں نظر آئے ہیں۔
اگر زوہران ممدانی شہر چلانے میں بھی اپنے وعدوں کے مطابق کامیاب ہو جاتا ہے تو فرسٹ ورلڈ اور اس کے بعد باقی دنیا میں بھی اسی سے ملتے جلتے رجحانات سامنے آ سکتے ہیں، کیونکہ جنریشن زی اور ملینیلز اس تبدیلی کی قیادت کر رہے ہیں۔ ان رجحانات میں شناختی سیاست کے بجائے ورکنگ کلاس کی سیاست پر زیادہ بات اور عمل ہوگا اور اینٹی ووٹکس جیسے بے ایمانی نعروں کی جگہ حقیقی معاشی مسائل پر توجہ دی جائے گی۔
دنیا آج واقعی ایک بہت بڑا گاؤں بن چکی ہے اور ساری انسانیت ایک خاندان کی مانند ہوگئی ہے۔ یہ ہمیشہ سے ہی ایسا تھا، مگر اب یہ سب واضح طور پر نظر بھی آتا ہے۔ کہیں بھی کوئی بڑی تبدیلی تنہائی میں نہیں آتی۔ اس کے اثرات سب پر پڑتے ہیں اور ان کے نتائج بھی سب کو کسی نہ کسی درجے میں بھگتنا پڑتے ہیں۔
34 سالہ زوہران ممدانی میں وہ سب کچھ تھا جسے امریکا میں آج تک چیلنج کرنا آسان سمجھا جاتا تھا۔ وہ مسلمان تھا، امیگرنٹ تھا، اسرائیلی لابی کا ناقد تھا، اینٹی میگا موومنٹ تھا اور اعلانیہ ڈیموکریٹک سوشلسٹ تھا۔ اس کے ناقدین نے اسے انتہائی حد تک ناتجربہ کار اور خطرناک بھی کہا۔ ایسے شخص کو پرایا ثابت کرنا امریکا میں پلک جھپکتے میں ممکن سمجھا جاتا تھا۔
مگر اس سب کے باوجود، زوہران ممدانی نے نیتن یاہو اور اسرائیلی لابیوں کی کھل کر مخالفت کی، حتیٰ کہ اس بات سے بھی صاف انکار کر دیا کہ وہ انتخاب جیتنے کے بعد اسرائیل کا دورہ کرے گا۔ اس نے کہا: میں اسرائیل کیوں جاؤں؟ جبکہ باقی تمام امیدوار یہی گھسا پٹا راگ الاپ رہے تھے۔
امریکا میں سوشلسٹ ہونا کبھی اتنی بڑی گالی تھی کہ بعض اوقات لوگوں کو اس الزام میں برقی کرسی تک دے دی جاتی تھی۔ روزنبرگز کی کہانی آپ کو یاد ہوگی، جنہیں سوشلسٹ ہونے کے الزام میں قتل کیا گیا۔ میکارتھی ازم کی پوری تحریک امریکا میں سوشلسٹوں اور کمیونسٹوں کے خلاف چلائی گئی۔ سرخ رنگ کی گھڑی یا سرخ کور والی کتاب بھی غداری کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ یہ رجحان کسی نہ کسی شکل میں آج تک موجود رہا۔
اسی لیے ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز دونوں ایسے امیدواروں سے دور بھاگتے رہے جن کے بارے میں سوشلسٹ ہونے کا ذرا سا بھی امکان ہوتا۔ برنی سینڈرز جیسے مقبول سیاست دان کو بھی دو بار اسی بنیاد پر صدارتی ٹکٹ سے محروم رکھا گیا۔ یہی حال برطانیہ میں جیرمی کوربن کے ساتھ ہوا۔ لیکن زوہران ممدانی اعلانیہ خود کو ڈیموکریٹک سوشلسٹ کہتا رہا اور اس کے باوجود جیت گیا۔ اس نے سوشلسٹ ہونے کی نئی تعریف یہ دی کہ اس کا مطلب دولت کی بہتر تقسیم، زیادہ پبلک فنڈنگ اور سماجی فلاح ہے، نہ کہ ون پارٹی سسٹم یا آمریت۔
اس نے وعدہ کیا کہ نیو یارک میں چار سال تک کرائے منجمد رکھے جائیں گے، پبلک ٹرانسپورٹ مفت ہوگی اور یونیورسل چائلڈ کیئر فراہم کی جائے گی، چاہے شہری امیگرنٹ ہو یا پیدائشی امریکی۔ یہی وہ نئی سیاست ہے جس نے 1 فیصد سپورٹ سے 50 فیصد تک کا سفر طے کیا، 26 ارب پتیوں کی مخالفت کے باوجود کامیابی حاصل کی اور امریکی سیاست میں ایک نئے پیراڈائم کی بنیاد رکھ دی۔
آخر میں، پاکستانیوں کے لیے سبق یہی ہے کہ ہمیں شخصیات کے بجائے نظام پر یقین کرنا ہوگا۔ ہمیں ایسا نظام بنانا ہوگا جو گراس روٹ لیول تک کام کرے، خود کو بہتر بناتا رہے اور جس میں بہترین لوگ، چاہے وہ کسی بھی مذہب، رنگ، نسل یا قوم سے ہوں، آگے آ سکیں۔

