Tuesday, 14 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Malik Asad Jootah/
  4. Soil Science Aur Iski Ahmiyat

Soil Science Aur Iski Ahmiyat

سوائل سائنس اور اس کی اہمیت

کسی بھی ادارے یا سول سوسائٹی کی طرف سے کسی بھی معاشرے کا شعور اجاگر کرنے کے لیے تقریبات بہت اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ایک ایسی ہی تقریب کل یونیورسٹی آف لیہ میں منعقد کی گئی۔ جس میں یونیورسٹی کے طلباء و طالبات، ممبران سول سوسائٹی، اصلاحی تنظیموں کے مختلف ممبران، مختلف شعبہ ہاےُ جات سے تعلق رکھنے والی مقتدر شخصیات اور معزز اساتذہ کرام نے شرکت کی۔

تقریب کا موضوع پلوشن یا گندگی تھا۔ خاص طور پلاسٹک کے استعمال سے ہونے والی پلوشن سے زمین کی مٹی میں پیدا ہونیوالی خرابیاں اور نقصانات تھا۔ جن کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کی گئ۔ پلاسٹک اور پلاسٹک سے بنی اشیاء کا استعمال کیسے کم سے کم کیا جا سکے۔۔ اس بات کا بھی جائزہ لیا گیا۔

مانا کہ پلاسٹک سے بنی اشیاء سستی اور پائیدار ہوتی ہیں۔ اسی لیے تو اس کا استعمال پوری دنیا میں روز بروز بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ سالانہ 380 ملین ٹن پلاسٹک سالانہ تیار کیا جاتا ہے۔ جسے ٹھکانے لگانے کا خاطرخواہ کوئی بندوبست نہیں کیا جاتا ہے۔ نہ ہی اس کی ری سائیکلنگ کا کوئی بندوبست کیا جاتا ہے۔ پلاسٹک ایک ایسی چیز ہے جس سے بنی کچھ اشیاء صدیوں تک ضائع نہیں ہوتیں۔ یہ گلتی سڑتی نہیں۔ صدیوں تک زمین کے اندر جمی رہتی ہے اور جب سے پلاسٹک سے بنے شاپر آئے ہیں حالات مزید دگرگوں ہوتے جا رہے ہیں۔ آندھی آتی ہے تو یہ شاپنگ بیگ اڑ کر درختوں اور بجلی کے تاروں میں الجھ جاتے ہیں۔ ساری خوبصورتی کا ستیا ناس کر دیتے ہیں۔ زمین کے اوپری حصے پر ان کی ایک تہہ بنتی جا رہی ہے۔ جس کی وجہ سے زمین کے مسام بند ہوتے جا رہے ہیں۔ جس کے نتیجے میں زمین بنجر ہوتی جا رہی ہے۔

مزید درختوں کی بے دریغ کٹائی جاری ہے، پیدوار میں کمی ہوتی جا رہی ہے، آبادی بڑھتی جا رہی ہے، موسم تبدیل ہوتے جا رہے ہیں، ریسورسز کم ہوتے جا رہے ہیں اور انوائرمنٹ خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے۔

سر رائن ہولڈ میسنر جن کا تعلق اٹلی سے ہے۔ جن کی وجہ شہرت بطور ماوُنٹینئیر ہے۔ وہ ایک انٹرنیشنل ٹورسٹ اور لکھاری بھی ہیں۔ جنہوں نے ماوُنٹ ایورسٹ 1978 میں پہلی دفعہ سر کی تھی۔ اور پھر دنیا کی 14 عدد آٹھ ہزاری چوٹیاں بغیر آکسیجن کے سر کے ورلڈ ریکارڈ بنایا۔

ایک جگہ فرماتے ہیں کہ پاکستان کے شمالی علاقے دنیا کے خوبصورت ترین علاقے ہیں۔ ان کی مثال دنیا میں اور کہیں نہیں ملتی۔ مگر افسوس کہ یہ دن بدن پلوٹ ہوتے جا رہے ہیں۔ میرا دل کرتا ہے کہ میں انہیں کسی طرح سے محفوظ کرکے دنیا کے نظروں سے چھپا کر رکھ سکوں۔ دو چار سو سال بعد جب دنیا بہت گندی ہو جائے گی۔ میرے پوتوں پڑپوتوں میں سے کوئی مجھے سوال کرے گا کہ آپ تو کہتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے یہ دنیا بہت خوبصورت بنائی ہے۔ مگر یہاں پر تو ہر طرف گندگی ہے پلوشن ہے۔ پلاسٹک سے بنی اشیاء کی باقیات کے ڈھیر ہیں۔ تو میں اسے پاکستان کے شمالی علاقے نکال کر دکھا سکوں کہ نہیں اللہ تعالٰی نے تو دنیا ایسی شاندار بنائی تھی۔ جو ہمارے کرتوتوں کی وجہ سے گندی پراگندی ہوگئی ہے۔

کنوپی کے اندر کھڑے طلباء اور طالبات بہت ڈسپلنڈ نظر آئے۔ ہیڈ اوف ایگریکلچر ڈیپارٹمنٹ پرنسپل ڈاکٹر امبرین شہزاد نے بھی شرکت کی اور طلبہ کے اس پروگرام کو سراہا۔

ڈاکٹر کاشف حسین صاحب سوائل سائنس ڈیپارٹمنٹ نے پلاسٹک اور اس کے استعمال سے پیدا ہونیوالی خرابیوں اور بہت سی ٹیکنیکیلیٹیز سے آگاہ کیا۔

ڈاکٹر علی رضا صاحب سوائل سائنس ڈیپارٹمنٹ نے پلاسٹک کے نقصانات اور پولیو کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

ویلڈن۔۔ سوسائٹی آف ایگرین ایگریکلچر۔ بہت اچھے انتظامات تھے۔ بہت ڈسپلنڈ کراوُڈ۔۔

Check Also

Post Doctorate On Find Your Why (2)

By Muhammad Saqib