School Jati Bachi Ka Waqia
سکول جاتی بچی کا واقعہ
کچھ دن پہلے جب میں اپنی بہنوں کو سکول چھوڑ کے واپس آ رہا تھا تو میں نے دیکھا ایک بچی جس نے اپنے پاؤں شاپر سے کوور کیے ہوۓ ہیں۔ تو میں رکا، اس بچی کے پاس آیا اور پوچھا کہ بیٹا آپ کونسی کلاس میں پڑھتے ہو؟ تو اس ننھی شہزادی نے بتایا کہ میں آٹھویں جماعت سرکاری سکول میں پڑھتی ہوں۔ تو میں نے پوچھا کہ بیٹا یہ پاؤں پہ شاپر کیوں لگائے ہوئے ہیں؟ اس ننھی گڑیا نے بتایا کہ اصل میں میرے ابو غریب ہیں۔ ٹیچر نے کہا ہے کہ آپ نے کل سے جرابیں پہن کر آنی ہے۔ تو میرے پاس جرابیں تو نہ تھیں اس لیے میں نے اپنے پاؤں پے شاپر لگا لیا ہے۔
یقین کریں یہی جملہ سن کے میرے پاؤں سے زمین نکل گئی۔ اللّه کی قسم مجھے بے انتہا رونا آ رہا تھا کہ آئے اللہ یہ بیچارے کس قرب سے گزر رہیں ہیں۔ تو میں نے پوچھا کہ بیٹا آپکے بابا کیا کرتے ہیں وہ بیچاری بولی بابا مزدوری کرتے ہیں۔ آج کل اتنی مہنگائی ہے بابا گھر کے اخراجات بھی پورے نہیں کر سکتے۔ میں نے پوچھا بیٹا آپکے اور بہن بھائی بھی ہیں؟ تو اس نے بتایا کہ جی ہم دو بہنیں اور ایک بھائی ہیں۔ باقی سب میرے سے چھوٹے ہیں۔
افسوس اس بات کا ہے کہ ہماری غریب عوام مہنگائی میں پس رہی ہے اور ہماری قوم کے نوجوان سیاسی جماعتوں کے سپورٹر ہیں۔ یہاں جب حق اور جہاں ساتھ دینا چاہیے وہاں کوئی غم سننے والا ہی نہیں ہے۔ کُل ملا کر بات صرف ایک ہی ہے جب تک ہمارے نااہل حکمران حکومت کریں گے اور عوام کا پیسہ کھائیں گے تو کسی تک اس کا حق پورا پورا نہیں پہنچایا جائے گا۔ ان کو روزِ قیامت اس کا جوابدہ ہونا پڑے گا۔
آج سے پہلے بھی تو حکومتیں تھیں۔
ایک واقعہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کا۔
امیرالمومنین حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ خلافت کا کام کر کے اپنے گھر آئے اور آرام کرنے کے لئے لیٹے ہی تھے کہ بیوی نے غمگین لہجے میں کہا امیرالمومنین اگلے ہفتے عید آ رہی ہے۔ بچہ نئی پوشاک کے لیے بہت بےچین ہے ابھی روتے ہوۓ سویا ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے فرمایا کہ تمہیں تو معلوم ہے کہ مجھے ماہوار سو درہم ملتے ہیں۔ جس سے بمشکل گھر کے اخراجات پورے ہوتے ہیں۔ بیوی وہ تو میں سمجھتی ہوں آپ بیت المال سے قرض لے لیں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے فرمایا بیت المال تو صرف غریبوں، یتیموں، فقیروں کا حق ہے تو صرف میں تو اس کا امین ہوں، بیوی بولی بے شک میرے سرتاج آپ کی بات سچ ہے مگر بچہ تو نا سمجھ ہے۔ اس کے آنسو نہیں دیکھے جاتے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز بولے تمہارے پاس کوئی چیز موجود ہے تو اسے فروخت کر دو اس سے بچے کی خوشی پوری ہو جائے گی۔ بیوی بولی امیرالمومنین میرے تمام زیورات آپ نے بیت المال میں جمع کرا دیئے ہیں بلکہ میرا قیمتی ہار بھی جو میرے والد نے مجھے تحفہ دیا تھا آپ نے وہ بھی جمع کروا دیا۔ اب تو میرے پاس آپ کی محبت کے سوا کچھ بھی نہیں۔ امیرالمومنین نے سر جھکا لیا بڑی دیر تک سوچتے رہے۔ اپنے ماضی میں جھانکنے لگے وہ بچپن، جوانی، خوشی، پوشی، نفاست جو لباس ایک بار پہنا دوبارہ پہننے کا موقع نہ ملا۔
جس راستے سے گزرتے ہوئے خوشبو سے معطر ہو جاتا، یہ سوچتے سوچتے ہی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ بیوی نے اپنے ہر دل عزیز شوہر کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو کہنے لگی مجھے معاف کر دیں میری وجہ سے آپ پریشان ہو گۓ ہیں۔ فرمایا کوئی بات نہیں پھر حضرت عمر بن عبدالعزیز نے بیت المال کے نگران کے لیے خط لکھ کر اپنے ملازم کو دیا اور فرمایا ابھی جاوید خط نگران کو دے آؤ۔ اس میں لکھا تھا مجھے ایک ماہ کی تنخواہ پیشگوئی بھیج دو۔
ملازم نے جوابی خط امیرالمومنین کو دیا جس میں لکھا تھا اے خلیفۃ المسلمین آپ کے حکم کی تکمیل سر آنکھوں پر لیکن کیا معلوم آپ کو معلوم ہے کہ آپ ایک ماہ زندہ رہ سکتے ہیں۔ جب یہ آپ کو معلوم نہیں تو کیوں آپ غریبوں کے مال کی حق تلفی اپنی پیشگی گردن پر رکھتے ہیں؟ آپ نے جواب پڑھا تو رونے لگے فرمایا نگران نے مجھے ہلاکت سے بچا لیا۔ اگلے ہفتے دمشق کے لوگوں نے دیکھا امرا کے بچے نئے حسین کپڑے پہن کر عید گاہ جا رہے تھے مگر امیرالمومنین کے بچے پرانے دھلے ہوئے کپڑوں میں ملبوس اپنے والد کا ہاتھ پکڑے عید گاہ جا رہے تھے۔
بچوں کے چہرے چاند کی طرح چمک رہے تھے کیونکہ آج ان کی نظر فانی دنیا کے وقتی خوشی پر نہیں بلکہ جنت کی ابدی تمنا کے احساس نے انہیں سرشار کر دیا تھا۔ اور آج کے دور کی حکومت کا تو اللّه ہی حافظ ہے۔ آپ سب دوستوں سے گزارش ہے کہ ایسے لوگوں کے مدد کیا کریں۔ انکی بھی ضروریات ہوتی ہیں۔ کوشش کریں اپنی فضول خرچی کم کر کے ایسے لوگوں کا سہارا بنیں۔ یہ لوگ بھی ہمارے بھائی ہیں۔ بے شک ہمارا ان کے ساتھ خونی رشتہ نہیں ہے لیکن انسانیت کا رشتہ ضرور ہے۔
ہمیں ایسے لوگوں کا سوچنا چاہئے۔ ان لوگوں کا سہارہ بن کر دیکھانے کا، قدم سے قدم ملانے کا، اخوت کا، رواداری کا، انصار اور مہاجرین کا۔ کہتے ہیں نہ ہم سب لوگ، اس پرچم کے ساۓ تلے ہم ایک ہیں ہم ایک ہیں۔ تو آج وقت ہے خود کو ایک ثابت کرنے کا۔ کیونکہ سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں ہم ایک ہیں۔ تو کیوں نہ ہم انکے غم کو سانجھا جانے، غم بانٹے انکا۔ آج ان کے اس مشکل وقت میں انکا ساتھ دیں اور انکو بھی زندگی جینے کا حق دیں۔