Mere Walid, Malik Mukhtar Ahmad Jootah
میرے والد، ملک مختار احمد جوتہ
آج تک سیکڑوں لوگوں پر کالم لکھ چکا ہوں آج جس شخصیت پر لکھنے جارہا ہوں وہ میرے والد صاحب یا ایسے بھی کہ سکتے لکھنے کی صلاحیت والد صاحب سے ہی میں نے سیکھی ہے۔ میرے والد نوے کی دہائی میں سنیر جرنلسٹ رہ چکے ہیں اور اب بھی لیہ میں سینیئر جرنلسٹ کی اہمیت سے جانے جاتے ہیں انکل ایم آر ملک کے کے بقول۔
90 کی دہائی میں لیہ میں صحافتی حوالے سے ملک مختار احمد جوتہ ایک بڑا نام رہا بڑے بڑے فرعون اس کے قلم کی زد میں رہے اس کے شرر بار قلم اور صحافتی کردار و عمل سے کرپٹ مافیا پر ہمیشہ ایک خوف طاری دیکھا ان کا کردار ایک حقیقی صحافی کا کردار تھا ایک ایسے وقت میں جب بڑے بڑے نام قلم کی بولی لگوا کر وقت کے فرعونوں کی دہلیز پر سجدہ ریز رہے مجھے آج بھی مختار احمد جوتہ کے بے داغ صحافتی کردار اور بے لوث دوستی پر فخر ہے۔
2004 میں جنرل سیکرٹری پریس کلب لیہ بھی رہ چکے ہیں اور اخبار فخر تھل لیہ کے چیف اڈیٹر بھی ہیں۔
یہ وہ وقت تھا جس سن میں میری پیدائش ہوتی ہے۔ اکثر دوست احباب پوچھتے ہیں اپکی صحافت کا آغار کیسے ہوا؟
آج بتاتا چلو کہ بیٹا باپ کا عکس ہوتا ہے جو خصوصیات والد میں پائی جاتی ہیں وہی بیٹے میں ہوتی ہیں کیونکہ بچپن سے لے کر جوانی تک ہم صرف اور صرف اپنے والد صاحب کے ساتھ رہتے ہیں اور والد صاحب کی زندگی کو فالو کرتے ہیں۔
میرے بابا کے شائع شدہ خبریں اور کالم ابھی بھی موجود ہیں ایک پرانی الماری جس میں پرانے اخبارات ہیں جن پر ابو کے لفظ تحریر ہیں۔
بچپن میں اکثر بچوں کو شوق ہوتا ہے چیزوں کو چھیڑ چھاڑ کرنے کا تو میں اکثر وہ الماری کھول کر اخبارات دیکھتا تھا جس پر ابو کی تصویر لگی ہوتی تھی، میرے دل میں ایک خواہش پیدہ ہوتی کہ کاش میری بھی تصویر یہاں اخبارات میں لگی ہو تو وہی سے سوچ نے جنم لیا اور آج آپکے سامنے ہوں۔
والد صاحب ہمت، شفقت، چاہت، قربانی یکجا لکھوں تو بابا جانی۔ باپ کی رہنمائی، شفقت اور محبت کے بغیر ہماری ذات تو ذرۂ بے نشان کی مانند ہوتی ہے۔ باپ کا رشتہ عظیم نعمت خداوندی ہے۔ زندگی کے تپتے صحرا اور نفسانفسی کے دور میں ماں کے بعد باپ ہی وہ ہستی ہے جو اولاد کی معمولی سی تکلیف پر پریشان اور بے چین ہو جاتی ہے۔ بظاہر رعب اور دبدبے والی اس ہستی کے پیچھے ایک شفیق اور مہربان چہرہ ہوتا ہے جسے ماں کی طرح اپنے جذبات کا اظہار کرنا نہیں آتا۔ جو زمانے کے سرد و گرم برداشت کرتے ہوئے مسلسل ایک مشین کی طرح کام کئے جاتا ہے تاکہ اس کے جگر گوشوں کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ انکے چہروں پرہمیشہ مسکراہٹ رہے۔ انہیں کسی چیز کی کمی یا حسرت نہ رہے۔ شاید اپنے آپ کو بہت مضبوط ثابت کرنے کے لئے اپنے اوپر ایک رعب اور سختی کا خول چڑھائے رہتا ہے۔ جبکہ اپنے اندر پیار، محبت، ایثار، شفقت اور تحفظ چھپائے رکھتا ہے۔ ساری زندگی مسلسل کام اور صرف کام
مجھے تھکنے نہیں دیتا ہے یہ ضرورت کا پہاڑ
میرے بچے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے
یہی وہ عظیم باپ ہے جو اولاد کے سکھ، خوش حالی، تعلیم، صحت اور روشن مستقبل کی خاطر سخت محنت کرتے زندگی گزار دیتا ہے۔ صبح سے شام تک رزق کی خاطر ہزار صعوبتیں برداشت کرنے کے باوجود بچوں کو دیکھتے ہی اپنی تھکن بھول کر ان کی ناز برداریاں کرنا والد ہی کا خاصہ ہے۔ دنیا کا ہر باپ اپنی اولاد کے لئے ایسے ہی جیون تیاگتاہے خود اپنی ذات سے غافل ہوکر اپنی ہر ضرورت بھول کر اولاد کی ہر خواہش اور فرمائش پوری کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے اختیار میں ہو تو کسی بچے کی آنکھ میں ہلکی سی نمی بھی نہ آنے دے۔ ان کی زندگی میں کوئی تشنگی نہ رہنے دے اس کا بس چلے تو بچوں کی زندگی میں آنے والے غم مشکلات اور محرومیوں کو سمیٹ کر سمندر میں بہادے۔
مجھے وہ وقت بھی اچھی طرح یاد ہے جب میری والدہ بیمار ہوا کرتی تھی میرے والد صاحب خود کھانا بنایا کرتے تھے اور ہمیں کھلا کر سکول چھوڑ آتے تھے اور ہمیشہ کہتے تھے وقت ایک جیسا نہیں رہنا بڑی مشکلات کے بعد اللہ پاک نے ہمیں خوشیوں سے نوازہ اور والدہ کو صحت عطاء کی۔ اللہ پاک کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔
اکثر ایک جملہ سنتا رہتا ہوں ابو سے کہ اگر اچھا وقت نہیں رہا تو برا بھی نہیں رہے گا۔
مجھے اپنے والد پر بے لوث فخر ہے اور میں بھی اپنے والد جیسا باپ بنانا چاہتا ہوں سہی اسی طرح جس طرح میرے والد نے میری تربیت کی۔ اللہ پاک میرے والد صاحب کو صحت والی لمبی زندگی دے اور ہمیشہ خوش رکھے میرے سر پر سایہ ہمیشہ برقرار رکھے۔
شیکسپیئر نے بھی ایک خوبصورت بات کہی جس کا مفہوم ہے کہ، جب والد اپنے بیٹے کو تحفہ دیتا ہے تو اس لمحے دونوں ہنستے اور خوش ہوتے ہیں۔ مگر جب بیٹا اپنے والد کو تحفہ دیتا ہے تو اس لمحے دونوں کی آنکھوں میں آنسو ہوتے ہیں!
اللہ تعالیٰ ہمارے سروں پر باپ کا سایہ سلامت رکھے اور ہمیں ان کی خدمت کرنے کا موقع عطا فرمائے۔ آمین۔ ایک شاعر کے بقول والد صاحب کی عظمت پر
اے میرے تابندہ سورج
زندگی کے بام پر تیرا وجود
یوں ہے جیسے ایک سورج عکس گیر
مجھ کو اپنی مہر پرور روشنی کی گود میں لیتا ہوا
ایک آسودہ تپش کے حوصلے دیتا ہوا
تیری کرنوں کی بہت دانش بھری سی روشنی نے
میرے ہر اک خواب کے گیسو سنوارے
اے میرے تابندہ سورج
مریی شاخ برگ و بار
تیری منت بار ہے!