Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Malik Asad Jootah
  4. Mah e Ramzan Aur Eid Ke Huqooq

Mah e Ramzan Aur Eid Ke Huqooq

ماہ رمضان اور عید کے حقوق

رمضان مہمان نہیں بلکہ میزبان ہے جو ہر سال آکے ہم مسلمانوں کی مہمان نوازی کرتا ہے۔ ہماری کیا اوقات کہ ہم ایسے بابرکت مہینے کو نوازے۔ ہم نہیں نواز سکتے رمضان ہمیں آکے نوازتا ہے نیکیوں سے، اچھے اعمال سے، پرہیزگاری سے اور ہمیں خوشنودیِ الٰہی تک لے جاتا ہے۔ ہمیں اس قابل بناتا ہے کہ کم اپنی کردار کشی کر سکیں، با حکمِ اللہ ذوالجلال خود کو بہتر سے بترین کر سکیں۔ نہ ہی رمضان المبارک کا مہینہ مہمان ہے اور نہ ہی پہلی و آخری بار آیا ہے، مہمان تو ہم ہیں اس دنیا میں۔ اگلی بار ہمیں رمضان کی میزبانی ملے نہ ملے، خود کو سنوارنے کا موقع ملے نہ ملے کچھ پتا نہیں۔ جس نے رمضان کو اس سال پا لیا وہ بطور مہمان اپنے میزبان سے شکرِ اللہ کی صورت میں شکریہ ادا کرے۔

تیس روزے گزرنے کے بعد عید آجاتی ہے اور روزے داروں کے لئےایک تحفہ ہے۔ وہ عید رمضان کے روزوں کے ختم ہونے پر منائی جاتی ہے۔ رمضان کے اختتام پر روزہ دار کے لئے خوشی ہے۔

فطر کے معنی ہیں کھولنا۔ مطلب رمضان کے کے تیس روزوں کے بعد ماہ شوال کی پہلی تاریخ کو روزےکھول دیے جاتے ہیں اور عید منائی جاتی ہے۔ اور پھر روزے دار اللّه پاک کا شکر ادا کرتے ہیں اور خوب طریقے سے عید مناتے ہیں۔ اس عید کے موقع پے غریب اور مسکینوں کو فطرنہ اور زکواة وغیرہ دے کر انکی خوشی کو دوبالا کیا جاتا ہے۔

اس بار کی عید غریب مزدروں سفید پوشوں کے لیے بڑی مشکل ہے کیوں کہ مہنگائی کا طوفان آپکے سامنے ہے۔ آج کے حکمرانوں نے جو ملک کا حال بنایا ہوا ہے یا جو غریبوں کا حال کیا ہوا ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔ لوگ بیچارے روٹی کو ترس رہے ہیں۔ آٹا تک ان کے گھر میں موجود نہیں ہے۔ بیچارے غریب خون کے آنسو رو رہے ہیں۔ کوئی نہیں ہے ان کی آواز سننے والا۔

اگر آپ آج کی حکومت کے حکمرانوں اور پچھلی حکومتوں کے حکمرانوں کی عیدیں اور اس کے علاوہ باقی سہولیات و آرام سکون دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ آج کی اور پچھلی حکومت میں کیا فرق ہے۔ ایک واقعہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کا آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔

امیر المومنین حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللّه خلافت کا کام کرکے اپنے گھر آئے اور آرام کرنے کے لئے لیٹے ہی تھے کہ بیوی نے غمگین لہجے میں کہا امیرالمومنین اگلے ہفتے عید آ رہی ہے۔ بچہ نئی پوشاک کے لیے بہت بے چین ہے ابھی روتے ہوۓ سویا ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللّه نے فرمایا کہ تمہیں تو معلوم ہے کہ مجھے ماہوار سودرہم ملتے ہیں۔ جس سے بمشکل گھر کے اخراجات پورے ہوتے ہیں۔ بیوی وہ تو میں سمجھتی ہوں آپ بیت المال سے قرض لے لیں حضرت عمر بن عبدالعزیز نے فرمایا بیت المال تو صرف غریبوں یتیموں فقیروں کا حق ہے تو صرف میں تو اس کا امین ہوں بیوی بولی بے شک میرے سرتاج آپ کی بات سچ ہے مگر بچہ تو نہ سمجھ ہے۔ اس کے آنسو نہیں دیکھے جاتے۔

حضرت عمر بن عبدالعزیز بولے تمہارے پاس کوئی چیز موجود ہے تو اسے فروخت کر دو اس سے بچے کی خوشی پوری ہو جائے گی۔ بیوی بولی امیرالمومنین میرے تمام زیورات آپ نے بیت المال میں جمع کرا دیئے ہیں بلکہ میرا قیمتی ہار بھی جو میرے والد نے مجھے تحفہ دیا تھا آپ نے وہ بھی جمع کروا دیا۔ اب تو میرے پاس آپ کی محبت کے سوا کچھ بھی نہیں۔

امیرالمومنین نے سر جھکالیا بڑی دیر تک سوچتے رہے۔ اپنے ماضی میں جھانکنے لگے وہ بچپن جوانی خوشی پوشی نفاست جو لباس ایک بار پہنا دوبارہ پہننے کا موقع نہ ملا جس راستے سے گزرتے ہوئے خوشبو سے معطر ہو جاتا، یہ سوچتے سوچتے ہیں آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ بیوی نے اپنے ہر دل عزیز شوہر کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو کہنے لگی مجھے معاف کردیں۔

میری وجہ سے آپ پریشان ہوگے فرمایا کوئی بات نہیں پھر حضرت عمر بن عبد العزیز نے بیت المال کے نگران کے لیے خط لکھ کر اپنے اپنے ملازم کو دیا اور فرمایا ابھی خط نگران کو دے آؤ اس میں لکھا تھا مجھے ایک ماہ کی تنخواہ پیشگی بھیج دو ملازم نے جوابی خط امیرالمومنین کو دیا جس میں لکھا تھا اے خلیفۃ المسلمین آپ کے حکم کی تکمیل سر آنکھوں پر لیکن کیا معلوم آپ کو معلوم ہےکہ آپ ایک ماہ زندہ رہ سکتے ہیں۔

جب یہ آپ کو معلوم نہیں تو کیوں آپ غریبوں کے مال کی حق تلفی اپنی پیشگی گردن پر رکھتے ہیں آپ نے جواب پڑھا تو رونے لگے فرمایا نگران نے مجھے ہلاکت سے بچا لیا۔ اگلے ہفتے دمشق کے لوگوں نے دیکھا امرا کے بچے نئے حسین کپڑے پہن کر عید گاہ جارہے تھے مگر امیر المومنین کے بچے پرانے دھلے ہوئے کپڑوں میں مبلوس اپنے والد کا ہاتھ پکڑے عید گاہ جارہے تھے بچوں کے چہرے چاند کی طرح چمک رہے تھے کیونکہ آج ان کی نظر فانی دنیا کے وقتی خوشی پر نہیں بلکہ جنت کی ابدی تمنا کے احساس نے انہیں سرشار کر دیا تھا۔

آج کے دور کی حکومت کا تو اللّه ہی حافظ ہے۔ جو بچاری غریب عوام کا حال ہے۔ آپ سب دوستوں سے گزرش ہے کہ ایسے لوگوں کے مدد کریں۔ انکی بھی ضروریات ہوتی ہیں۔ اس لیے آئیں ہم سب مل کر عید کی خوشیوں میں ان سب کی خوشیوں کو بھی شامل کر لیں جو اس کئی مالی حیثیت نہیں رکھتے کے ہمارے مذہب اسلام کا بنیادی فلسفہ بھی یہی ہے کے اللہ پاک کے عطا کردہ بدعتوں کی تقسیم، اللہ پاک سے دعا ہے کے ہماری عبادات کو قبول کر ے، ہمارے صغیرہ کبیرہ گناہوں کو معاف کردے، ہماری پے اپنی رحمتوں، برکتوں اور نعمتوں کا نزول کرے ہمیں جہنم کی آگ سے بچائیے ہمارے رزق، عبادت، صحت میں برکت دے، حسد کرنے والوں کے شر سے محفوظ رکھے۔

Check Also

Aaj Soop Nahi Peena?

By Syed Mehdi Bukhari