Insan Aur Roti
انسان اور روٹی
انسان اور روٹی کا تعلق بہت پرانا ہے جیسے انسان کے لیے جسم میں ریڑھ کی ہڈی حیثیت رکھتی ہے اسی طرح پیٹ کے لئے روٹی بھی یہی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ ایک بات کسی نے کمال کی کہی ہے کہ کبھی کبھی روٹی انسان کو کھا جاتی ہے۔ آجکل تو انسان کو گندم اور آٹے کے لیے چکی کے پاٹوں سے گزر کر آنا پڑتا ہے۔
آج صبح میرا ماڈل بازار جانا ہوا تو میں نے دیکھا کہ ایک بزرگ جن کی عمر کوئی پچھتر سال ہوگی۔ وہ لائن میں لگے ہوئے ہیں اور آٹے کے انتظار میں ہیں۔ میں انکے قریب پہنچا اور پوچھا کہ بابا جی کہاں سے ہیں؟ تو اس بزرگ نے بتایا کہ بیٹا دریا کے کنارے سے ہوں۔ پوچھا بابا جی یہاں تک کیسے پہنچے؟ اس بزرگ کا کہنا تھا کہ بیٹا پیدل صبح نکلا تھا لوگوں کی منت سماجت کر کے یہاں تک پہنچا ہوں۔ یہاں پر پہلے سے ہی لائن لگی ہوئی ہے۔ ایک طرف انسان کو جنت بدر ہونے پہ گندم سے شکایت ہے تو دوسری جانب گندم کے بغیر ایک دن گزارا بھی مشکل ہے۔ آجکل تو انسان کو خود گندم آٹے اور روٹی کے لیے پسنا پڑتا ہے۔
روٹی انسان کو کہاں تک کس درجے تک لے جاتی ہے۔
بقول شاعر
اسے کانا گیا، پیسا گیا، گوندھا گیا لیکن
سبق گندم سے لینا نسل آدم بھول جاتی ہے۔
افسوس کی انتہاء سفید پوش انسان کے لئے تو قیامت برپا ہوگئی ہے جو بیچارا روٹی سے بھی جا رہا ہے۔ جو چار فاقوں سے مر رہے ہیں۔ اس حوالے سے مجھے فیض احمد فیض کی نظم یاد آئی ہے۔ فیض احمد فیض کی ولادت 1911 میں ہوئی اور وفات 1984 میں۔
یہ نظم انہوں نے اپنے دور میں لکھی تھی ملاحظہ فرمائیں۔
جس دیس میں آٹے چینی کا
بحران فلک تک جا پُہنچے
جس دیس میں بجلی پانی کا
فقدان حَلق تک جا پُہنچے
جس دیس سے ماؤں بہنوں کو
اغیار اٹھا کر لے جائیں
جس دیس سے قاتل غنڈوں کو
اشراف چُـھڑا کر لے جائیں
جس دیس کی کورٹ کچہری میں
انصاف ٹکوں پر بکتا ہو
جس دیس کا منشی قاضی بھی
مجرم سے پوچھ کے لکھتا ہو
جس دیس کے چپے چپے پر
پولیس کے ناکے ہوتے ہوں
جس دیس کے مندر مسجد میں
ہر روز دھماکے ہوتے ہوں
جس دیس میں جاں کے رکھوالے
خود جانیں لیں معصوموں کی
جس دیس میں حاکم ظالم ہوں
سسکی نہ سنیں مجبوروں کی
جس دیس کے عادل بہرے ہوں
آہیں نہ سنیں معصوموں کی
جس دیس کی گلیوں کوچوں میں
ہر سمت فحاشی پھیلی ہو
جس دیس میں بنت حوا کی
چادر بھی داغ سے میلی ہو
جس دیس کے ہر چوراہے پر
دو چار بھکاری پھرتے ہوں
جس دیس میں روز جہازوں سے
امدادی تھیلے گرتے ہوں
جس دیس میں غربت ماؤں سے
بچے نیلام کراتی ہو
جس دیس میں دولت شرفاء سے
نا جائز کام کراتی ہو
جس دیس کے عہدیداروں سے
عہدے نہ سنبھالے جاتے ہوں
جس دیس کے سادہ لوح انساں
وعدوں پہ ہی ٹالے جاتے ہوں
اس دیس کے ہر اک لیڈر پر
سوال اٹھانا واجب ہے
اس دیس کے ہر اک حاکم کو
سولی پہ چڑھانا واجب ہے۔
(فیض احمد فیض)
یہ نظم کب لکھی گئی تاریخ کا تو پتا نہیں، لیکن یہ نظم اس وقت کی اور اب کے وقت کی مکمل ترجمانی کرتی ہے۔ اصل وجہ ہمارے حکمران ہیں جو غریب کا حق کھا کر خود تو پیٹ بھر لیتے ہیں لیکن غریب آبادی کا بالکل بھی نہیں سوچتے۔ جس کا نقصان یہ ہوتا ہے غریب سے روز بہ روز روٹی دور ہوتی جاتی ہے۔ ویسے اگر آپ گندم ایکسپورٹ کے لحاظ سے دیکھیں تو پاکستان آپکو 6th نمبر پہ ملے گا۔ لیکن پاکستان کی اپنی عوام آٹے سے محروم ہیں جو بیچارے فاقوں سے مر رہے ہیں۔
افسوس کی انتہا۔
کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ بندہ روٹی کو کھاتا ہے۔ مگر بعض وقت روٹی بھی بندے کو کھا جاتی ہے۔ حکمرانوں کو یہ ضرور یاد رکھنا ہوگا کبھی کبھی یہی روٹی حکومت اقتدار بھی کھا جاتی ہیں۔