Deen Ko Izzat Do
دین کو عزت دو
پہلا منظر 1985:
"تقسیم کرو اور حکومت کرو" والا فارمولا تو کامیاب ہو چکا تھا اب باری تھی انہیں ان کی تہذیب سے متنفر کرنے کی۔ تعلیم گاہوں میں تین درجے بنا دیے گئے سب سے پہلے امیر طلباء انگلش میڈیم، اس سے کم درجے والے طلباء اردو میڈیم اور سب سے مفلس اور غریب طلباء مدرسوں کے لیے رہ گئے۔ افسر کی وردی پینٹ کوٹ جب کہ چوکیداروں اور کم درجے والے ملازموں کے سر پر پگڑیاں پہنا دی گئی۔ سرکاری زبان کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے اس وقت یہ حربہ اس حد تک کامیاب نہ ہوا۔ یہ ایک slow poison تھی جسکا اثر بعد میں آنا تھا۔ کیونکہ بلاشبہ بانیان پاکستان میں شامل ایک بڑا گروہ علماء ہی تھے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ لوگ ان کو سمجھتے تھے۔
دوسرا منظر1947:
ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لئے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں"قاعد کی یہ آواز ہر مرد مومن نے سنی کیونکہ بے شک ایک اسلامی ریاست سیکولر اسٹیٹ سے ہر لحاظ سے زیادہ بہتر ہے۔ سنسکار تو بدل ہی جاتے ہیں اور انہیں بدل بھی جانا چاہیے۔ مگر ایک حقیقی مذہب کے اصول بدلنے کے لیے نہیں بنائے جاتے۔ اس ریاست کا دوسرا نام ہی حقوق کا تحفظ ہے۔ یہ نہیں دیکھتا کہ سامنے کھڑا شخص اونچی ذات سے ہے یا نیچلی سے، رنگ و نسل مذہب کیا ہے سوائے اس کا کردار۔
تیسرا منظر1950 سے 1988:
لوگ بھول گئے کہ ان کا مقصد کیا تھا۔ تین چار رہنماؤں کے اس دنیا سے چلے جانے سے ہی لیڈر شپ کا فقدان پیدا ہوگیا۔ تعلیم، تجربے اور نامناسب معاشی و سیاسی حالات نے ہی شاید ایسا کرنے پر مجبور کر دیا اور اس کی بڑی وجہ سیاست پر چھایا ہوا وہ گروہ تھا جنہوں نے اپنی سستی شہرت کے لیے قائداعظم کا ساتھ دیا تھا۔ ورنہ وہ ان کے نظریات کو دل سے تسلیم نہ کرتے۔
لیکن اس منظر کا اختتام تھوڑا بخش ہوتا ہے۔ پرانے لوگوں کی زبانی ہے کہ ضیاءالحق کے دور میں کوئی بھی غلط کام کرنے سے پہلے دس بار سوچتا کیونکہ شرعی سزائیں نافذ ہو چکی تھی، دینی مدارس اور علماء کی حوصلہ افزائی ہو رہی تھی اور معیشت کو بھی اسلامی اصولوں پر چلانے کی کوشش کی جا رہی تھی لیکن زندگی نے ضیاءالحق سے موقع اچانک چھین لیا۔
چوتھا منظر 2001:
اب تو طوفان برپا ہوگیا تھا۔ شراب خانے اور بےحیائی کے اڈے کھول دیے گئے۔ صحافی عورتوں کے سر سے دوپٹے اتروا دیئے گئے۔ مسجدوں اور مذہبی لوگوں پر بےجا پابندیاں لگا دی گئی۔ وہ شخص بھول گیا تھا کہ مصطفٰی کمال پاشا ایک آئیڈیل رہنما نہیں ہو سکتا۔ آج 2021 کا ترکی اس کی مکاریوں کو کہیں نہ کہیں تسلیم کرتا ہے اور اس نظریے سے اتفاق کرتا ہے کہ اگر مسلمانوں کو ان کا اصل یاد دلا دیا جاۓ تو وہ اپنی کھوئی ہوئی عظمت واپس پا سکتے ہیں۔
پانچواں منظر 2018:
ایک بار پھر مدینہ کی ریاست کے قیام کے نعرے لگائے گئے اور وزیراعظم نے قوم کا دنیا میں اعتماد بحال کیا لیکن میں کیسے کہوں کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست بنے گا جب وزراء کی جانب سے علماء کا مذاق اڑانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ عام لوگوں نے چندہ اکٹھے کرکے مدرسے بناۓ، یونیورسٹیاں بنانا تمہارا کام تھا لیکن تم ترقی نہ ہونے کا الزام مدرسوں کو دیتے ہو افسوس صد افسوس۔
میں کیسے کہوں کہ ہم ایک اسلامی ریاست بنا سکیں گے جبکہ اغیار اپنی جڑیں زمین میں مضبوط کر چکا ہے۔ بیکن ہاؤس جیسے پروجیکٹس اسلامی اسلامو فوبیا پھیلا رہے ہیں۔ اسلامی عبادت، رسومات اور اصولوں پر بےجا تنقید کی جا رہی ہے۔ مغربی کلچر کو قابل قبول بنایا جا رہا ہے اور اب یہ فتنہ نچلی سطح تک پہنچ چکا ہے۔
آخری منظر:
دوستو، اگر آپ واقعی چاہتے ہو کہ آپ کو اس ملک میں اپنا دین زندہ نظر آئے تو اپنا کردار ادا کرو۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ابھی مکمل طور پہ ایک نئی نسل کی ضرورت ہے کیونکہ آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے اس وقت resolution سے زیادہ evolution کی ضرورت ہے۔ میڈیا بیوروکریسی، فائننس ڈیفنس اور ایجوکیشن میں ایسے لوگوں کو آنا چاہیے جو دین کا احساس رکھے ہوئے ہوں۔
قاسم علی شاہ کہتے ہیں کہ اگر پاکستان کے ٹاپ مدارس جیسا کہ جامعہ اشرفیہ، جامعہ نعیمیہ وغیرہ میں سے ہر کوئی کسی ایک مقابلے کے امتحان جیسا کہ css کی ذمہ داری لے لیں اور اپنے دورہ حدیث کے ٹاپ 10 طلباء کو اس کی مفت تیاری کروائیں، تو آئندہ چند سالوں تک پاکستان کی باگ دوڑ مذہبی لوگوں کے ہاتھ میں ہوگی۔ نئی نسل کی تدریس سب سے ضروری کام ہے۔ تم دین کو سمجھو اور پھیل جاؤ۔ جس عوامی محکمے میں تم کو جگہ ملے اپنے حصے کی شمع جلاؤ۔ ہمارے مدارس کو چند مثبت تبدیلیاں اپنانے کی ضرورت ہے۔ اپنی انفرادی زندگی میں دین کو شامل کر کے دیکھو۔ دیے سے دیا جلے گا اور دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان ایک اسلامی فلاحی ریاست بن جائے گی انشاءاللہ۔