Cancer Ke Bache Ki Wafat
کینسر کے بچے کی وفات

بچوں کے حقوق کو کچلنے والے رواج، روایات کے علمبرداروں! جن کو رواج میں ایک خامی بھی نہیں دکھتی، آج کی تازہ خبر سے اپنے کلیجے پھر سے ٹھنڈے کر لو۔
کسی کے پاس بہت کچھ ہے اُس خدا کا دیا۔
کسی کے پاس سوائے خدا کے کچھ بھی نہیں!
آج الفاظ رنجیدہ ہیں اور آنکھیں نم ہیں الفاظ ساتھ نہیں دے رہے کہ کیسے لکھوں کلیم بھائی آپکی داستان۔ لوگ اکثر کہتے ہیں کہاں ہے مہنگائی کہاں ہے اتنے بڑے مسائل۔
ادھر آؤ میں دکھاؤں تمہیں یہ مہنگائی کے طوفان بے بس الجھنوں میں شکار لوگ۔
میرے پاس آؤ میں دکھاؤں تمہیں غربت سے بچھڑتے اپنے۔
مہنگائی نے سفید پوش انسان کی کمر توڑ دی ہے۔ الفاظ ہی ختم ہوجاتے ہیں یہاں آ کر"درد" لفظ آ جاتا ہے۔ مہنگائی کا بے قابو جن! آج کل ہر طرف مہنگائی کی وجہ سے پھیلی مایوسی، بے بسی اور الجھنوں نے معاشرے کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔ لوگ کس اذیت سے گزر رہے ہیں یہ دکھانے کے لیے اب یہاں اکثر لوگوں کو مر کے دکھانا پڑ رہا ہے۔ پھر بھی ہمارے حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ لوگ سسک رہے ہیں، بلک رہے ہیں لیکن کوئی پرسان حال نہیں۔ اس مہنگائی سے اثر انداز تو سب ہی ہوئے ہیں لیکن سفید پوش طبقہ ان حالات سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔
تحریر سے درد کہاں کم ہوتے ہیں ان الفاظوں سے۔۔
"اگر ان لفظوں سے تحریر ہوتے تو"
میں آج یہاں لفظوں کے جنازے اٹھا دیتا"
خوف طوفاں ہے، بجلیوں کا ڈر۔
سخت مشکل ہے آقا، کدھر جائیں ھم۔
آج جس موضوع پر میں قلم کشائی کرنا چاہ رہا ہوں وہ درد بھری اور ایک دکھی داستاں ہے۔ جس کے ذمہ دار ہم بذات خود میں آپ ہمارے حکمران ہیں۔ آپ اگر میری اکثر تحریریں پڑھتے ہیں تو اس میں سے ایک آپ نے کیس دیکھا ہوگا جن کو میں اکثر بلڈ لگواتا رہتا ہوں کلیم نام کے مریض کو۔ کچھ لمحات ایسے زندگی میں آتے ہیں کچھ مشکلیں اس طرح کی ہوتی ہیں جہاں انسان بے بس اور دوسروں سے مدد مانگتے ہوئے پھرتا ہے۔
تھیلیسیمیا کے لوگ جن میں بچے بڑے بوڑھے سب پریشان اور بے بس نظر آتے ہیں۔
یہ ایک کہانی درد بھری داستان ایک مزدور بٹھہ مزدور کی ہے۔ جو کہ خود تھیلیسیمیا کا مریض ہے اور اولاد میں بیٹا تھا اور بیٹی ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ خود تو تھیلیسیمیا کے مریض ہیں ہی ہیں بیٹے کو بھی کینسر جیسی بری مرض نے آ گھیرا۔
ذرا سوچیں، جنہیں اکثر خون لگتا ہو وہ کیا ہی دکھ بھرے لمحات سے گزر رہے ہوں گے؟ جہاں پر ایک بینچ پہ ایک باپ دوسری جانب بیٹا ہاسپٹل ایڈمٹ ہوں ایک طرف والد خون لگوا رہا ہو تو دوسری جانب بیٹا خون لگوا رہا ہو۔
بٹھے پر مزدوری سے کوئی چھ سے سات سو روپے ملتے ہیں اور خود مصیبت کے مارے اتنی برے مرض سے گزر رہے ہوں انکے لیے ایک مشکل لمحہ اور دکھ بھرے لمحات یہ آ پہنچے کہ بیٹے کو کینسر جیسی مرض نے آ گھیرا۔
اکثر لوگوں سے منت سماجت کرتے دکھائی دیتے کہ میرے بیٹے کو بلڈ لگوانا ہے تو خون عطیہ کریں۔
اہل ترس لوگ انکی مدد فرماتے۔ لاہور ہسپتال میں علاج چل رہا تھا۔ کینسر کو جسے بری مرض کہا جاتا ہے ویسے ہی اس سے نمٹنا بھی بہت بری طرح ہوتا ہے۔ اگر آپ جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہو ایک ٹیبلٹ جو کہ سورہ نب کے نام سے ہے انڈین ٹیبلٹس جن کی قیت 20000 ہفتے کا نسخہ ہے۔
آہ افسوس جس کی آمدن پورے ماہ کی ایک نسخے کے برابر ہو وہ کہاں اتنی مہنگی ادوایات لے سکتا ہے۔ اگر آپ ایسے معاشرے پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہو کئی بچے ایسے ہیں جو خون نہ ملنے کی وجہ سے جان کھو دیتے ہیں۔
آخر سوچ یہاں تک آ پہنچتی ہے کہ ذمہ دار کون ہے، میں آپ یا ہمارے حکمران؟
ملک پاکستان میں اتنے ٹیکس وصول کیے جاتے ہیں آخر وہ کہاں جاتے ہیں؟
جو ان غریب لچار بچوں کو علاج معالجے کا خرچ نہیں دے سکتے۔ کبھی ہم نے سوچا ہے کہ تیزی سے اپنی تباہی کی طرف رواں دواں اس دنیا میں ہر لحظہ برھتے ہوئے استحصال غربت نا انصافی مہنگی ظلم و ستم اور آٹے گندم گھاد سمیت ہر قسم کے بگاڑ کی اصل وجہ کیا ہے؟
میں سمجتا ہوں کہ اسکی اصل وجہ دین جسے ہم فطرت بھی کہ سکتے ہیں۔ فطرت سے دوری ہے۔ فطرت سے دوری کی کیا وجہ؟ اللہ سے دوری ہے اور وجہ ہمارے نفس ہیں جو کہ اتنے گھناؤنے بد کردار اور خوفناک ہو چکے ہیں جن میں احساسات کی بے انہتا کمی ہے۔ دنیا کی لالچ کے لیے آخرت کو بھول گے ہیں۔
آئے روز ایسے کئی ہزاروں بچے اپنی جان دے دیتے ہیں، آخر کیا وجہ ہے؟
لیکن سوال یہ ہے کہ ایسے لمحوں کا اصل ذمے دار کون ہے۔۔ حکومت؟ رشتے دار؟ ہمسائے؟ مالک مکان؟ یا پھر ہماری سفید پوشی جو ہمیں کسی سے اپنے حالات بیان کرنے کی اجازت نہیں دیتی؟ آخر ان مسائل کا حل کیا ہے؟ مہنگائی کا یہ بے قابو جن کیسے قابو میں آئے گا؟
میں اپنی قوم کے نوجوانوں سے مخاطب ہو کر کہ رہا ہوں اے نوجوانوں یہ چھوٹے بچے جن کی زندگی خون کے عطیہ سے جڑی ہوتی ہے، آپ آگے آئیں اور انکا سہارہ بنیں، بلڈ عطیہ کرنے کے بہت سارے فوائد ہیں جیساکہ موزی مرض کینسر و دل کی بیماریاں سے بچا جا سکتا ہے۔ خود بھی عطیہ کریں دوسروں کو بھی اس چیز کی موٹیویشن دیں۔
یا رب یہ ازیتوں کا سورج غروب ہو
تیری رحمت کو دیکھنے ہر شئے بے تاب ہے
آخر پہ ملک کے غداروں کے لیے، ٹیپو سلطان کو جس نے دھوکا دیا تھا وہ میر صادق تھا اس نے سلطان سے دغا کیا اور انگریز سے وفا کی تھی۔ انگریز نے انعام کے طور پر اسکی کئی پشتوں کو نوازا اور انہیں وظیفہ ملا کرتا تھا۔ مگر پتا ہے جب میر صادق کی اگلی نسلوں میں سے کوئی نا کوئی ماہانہ وظیفہ وصول کرنے عدالت آتا تو چپڑاسی صدا لگایا کرتا۔
میر صادق غدار کے ورثا حاضر ہوں
میرے بھائی میری بات ہمیشہ یار رکھنا جیسے شہید قبر میں جا کر بھی سینکڑوں سال زندہ رہتا ہے ایسے ہی غدار کی غداری بھی صدیوں یاد رکھی جاتی ہے۔ دن کے اختتام پر فرق اس چیز سے پڑتا ہے کہ انسان صحیح طرف تھا یا غلط طرف پہ۔
میری طرف سے یہ چھوٹا سا میسج ملک پاکستان کے غداروں کے لئے ہے۔ اللہ پاک کی قسم اس پاکستان سے وفا کرو دنیا آخرت میں کامیاب ہو جاؤ گے بہت ہی سستہ سودا ہے ایمان بچانے کا بہت بشارتیں دی گئی ہے اس پاکستان کے لئے۔۔ اپنا ایمان بچا لو۔۔
پاکستان زندہ آباد۔۔
جیو اور جینے دو۔۔