Bhikariyon Ki Barhti Hui Tadad Aur Safaid Posh
بھکاریوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور سفید پوش
بازار میں بھکاری کم و بیش دن کا دس ہزار مانگ کر بنا لیتا ہے۔ اس کے برعکس ریڑھی والا جس نے چھولے کی ریڑھی یا ٹکی ٹوفیوں کی ریڑھی لگائی ہے بھکاری کے مد مقابل اتنے پیسے نہیں جوڑ پاتا۔ آخر وجہ کیا ہے؟ ہم بھکاریوں کو تو پیسے دے دیتے ہیں لیکن ایک خددار جس نے عزت نفس ہونے کا مظاہرہ کیا اور محنت کا سفر شروع کیا ہے اسکی مدد نہیں کرتے آخر کیوں؟ لمحہ فکریہ۔
اللہ وحدہ لا شریک لہ نے صدقات و خیرات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے:
﴿وَما تُنفِقوا مِن خَيرٍ فَلِأَنفُسِكُم وَما تُنفِقونَ إِلَّا ابتِغاءَ وَجهِ اللَّهِ وَما تُنفِقوا مِن خَيرٍ يُوَفَّ إِلَيكُم وَأَنتُم لا تُظلَمونَ ﴿272﴾ لِلفُقَراءِ الَّذينَ أُحصِروا فى سَبيلِ اللَّهِ لا يَستَطيعونَ ضَربًا فِى الأَرضِ يَحسَبُهُمُ الجاهِلُ أَغنِياءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعرِفُهُم بِسيمـٰهُم لا يَسـَٔلونَ النّاسَ إِلحافًا وَما تُنفِقوا مِن خَيرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَليمٌ ﴿273﴾۔ سورةالبقرة
"اور جو بھی تم بھلی چیز اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے اس کا فائدہ خود پاؤ گے۔ تمہیں صرف اللہ کی رضا مندی طلب کرنے کے لیے خیرات کرنی چاہیے اور جو بھی تم بھلی چیز خرچ کرو گے تمہیں اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ صدقات کے مستحق صرف وہ فقراء ہیں جو اللہ کی راہ (جہاد) میں روک دیے گئے۔ جو زمین میں (کاروبار وغیرہ) کے لیے چل پھر نہیں سکتے، نادان لوگ ان کی بے سوالی کی وجہ سے انہیں مال دار خیال کرتے ہیں، آپ ان کی علامت سے انہیں پہچان لیں گے۔ وہ لوگوں سے چمٹ کر سوال نہیں کرتے اور تم جو کچھ مال خرچ کرو گے بےشک اللہ تعالیٰ اسے جاننے والا ہے۔ "
اسلام میں مانگنے سے منع کیا گیا ہے۔
زبیرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔
" لأن يأخذ أحدكم حبله فيأتي بحزمة الحطب على ظهره فيبيعها، فيكف الله بها وجهه، خيرٌ له من أن يسأل الناس أعطوه أو منعوه۔ "
(سنن ابن ماجہ، کتاب الزکاۃ، باب کراھیۃ المسئلۃ (1836) واللفظ لہ۔ صحیح البخاری، کتاب الزکاۃ، باب الاستعفاف عن المسئلۃ (1471) مسند احمد 1/164'167)
"تم میں سے کوئی شخص اپنی رسی پکڑ کر پہاڑ پر جائے اور اپنی پشت پر لکڑیوں کا گٹھا لاد کر لائے اور اسے فروخت کرکے اس کی قیمت پر قناعت کرے تو اس کے حق میں لوگوں سے سوال کرنے سے بہتر ہے لوگ اسے دیں یا نہ دیں۔ "
وہ بھکاری جس نے مانگ کر ماں، اللّه، رسول اور آپکی شادی ہوگی ایسی ایسی باتیں کرکے واستے دیے ہیں وہ پیسے لے کر بعد میں اپنے عیاشیاں پوری کرتا ہے۔ کبھی ہم نے سوچا کہ یہ جو شخص شکل سے نشئی لگ رہا ہے اس میں ہمارا کتنا ہاتھ ہے جو مدد کے مستحق ہے انکی مدد ضرور کریں لیکن دیکھ بھال کے۔ تحقیق کرکے ضرور دیں۔ یہ جو بھکاری نشہ کرتے ہیں معاشرے کو بگاڑنے میں بگاڑ کا سبب ہے ان میں ہم بھی تو شریک ہیں۔
ابھی اگر میں آپکو بتاؤں تو یہاں لیه میں نے دیکھا ہے بارہ سال کی لڑکی جو کہ ابھی بالغ بھی نہیں ہوئی وہ پان اور سگریٹ پھوک رہی ہوتی ہے آخر ان کے پاس پیسے کہاں سے آتے ہیں جو یہ اپنے آپ کو خراب کرنے میں تلی ہوئی ہے کیا اس میں ہمارا ہاتھ ہے؟ اگر اسی جگہ آپ دوسری سائیڈ روڈ کے جانب دیکھیں وہ بزرگ جس کی پانچ بیٹیاں ہے اور وہ چھولے یا پھر کھجور کی ریڑھی لگائے بیٹھا ہوتا ہے وہ زیادہ مستحق ہے یا وہ جو مانگ کر سگریٹ اور پان کھا رہی ہوتی ہے وہ؟
ایک اور ہماری ناقص سوچ ہم ایسے لوگ جو خودداری کی خود مثال دے رہے ہوتے ہیں انکے پاس جا کر کہتے ہیں کچھ پیسے مزید کم کر دیں سوچنے کی بات ہے شاپنگ مال اور بڑی جگہوں پر تو وہ جتنے پیسے مانگتے ہیں ہم جھٹ سے نکال دیتے ہیں وہاں کیوں نہیں کم کروانے کی بھیک مانگتے۔ مہنگائی ضرور ہے لیکن اثر انداز سبھی ہوئے ہیں لیکن نچلا طبقہ زیادہ ہوا ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کی بے حسی اور ہماری نادانی کا ثبوت ہے۔ خدارا اپنی سوچ بدلیں اپنی ضروریات سامان ان سے لیں جو بیچارے خودداری کی اور عزت نفس ہونے کی مثال دے رہے ہوتے ہیں۔ آپ ان سے چھوٹی موٹی چیزیں خرید لیا کریں تاکہ انکے گھر کا چولہا جل سکے۔ اور انکی حوصلہ افزائی کریں۔