Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Malik Asad Jootah
  4. Beta Chahiye, Beti Nahi

Beta Chahiye, Beti Nahi

بیٹا چائیے، بیٹی نہیں

ﺯﻣﺎﻧﮧ ﺟﺎﮨﻠﯿﺖ ﻣﯿﮟ ﻟﻮﮒ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﺑﭽﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺑﭩﮭﺎ ﮐﺮ ﻗﺒﺮ ﮐﮭﻮﺩﺗﮯ ﺗﮭﮯ، ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﺑﭽﯽ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﮔﮍﯾﺎ ﺩﮮ ﮐﺮ، ﺍﺳﮯ ﻣﭩﮭﺎﺋﯽ ﮐﺎ ﭨﮑﮍﺍ ﺗﮭﻤﺎ ﮐﺮ، ﺍﺳﮯ ﻧﯿﻠﮯ ﭘﯿﻠﮯ ﺳﺮﺥ ﺭﻧﮓ ﮐﮯ ﮐﭙﮍﮮ ﺩﮮ ﮐﺮ ﺍﺱ ﻗﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﭩﮭﺎ ﺩﯾﺘﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺑﭽﯽ ﺍﺳﮯ ﮐﮭﯿﻞ ﺳﻤﺠﮭﺘﯽ ﺗﮭﯽ، ﻭﮦ ﻗﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﭙﮍﻭﮞ، ﻣﭩﮭﺎﺋﯽ ﮐﮯ ﭨﮑﮍﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﮔﮍﯾﺎؤﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﮭﯿﻠﻨﮯ ﻟﮕﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﭘﮭﺮ ﯾﮧ ﻟﻮﮒ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺍﺱ ﮐﮭﯿﻠﺘﯽ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﮭﻠﮑﮭﻼﺗﯽ ﺑﭽﯽ ﭘﺮ ﺭﯾﺖ ﺍﻭﺭ ﻣﭩﯽ ﮈﺍﻟﻨﮯ ﻟﮕﺘﮯ ﺗﮭﮯ۔

ﺑﭽﯽ ﺷﺮﻭﻉ ﺷﺮﻭﻉ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﮐﮭﯿﻞ ﮨﯽ ﺳﻤﺠﮭﺘﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺟﺐ ﺭﯾﺖ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮔﺮﺩﻥ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭻ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﻮ ﻭﮦ ﮔﮭﺒﺮﺍ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﻮ ﺁﻭﺍﺯﯾﮟ ﺩﯾﻨﮯ ﻟﮕﺘﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﻇﺎﻟﻢ ﻭﺍﻟﺪ ﻣﭩﯽ ﮈﺍﻟﻨﮯ ﮐﯽ ﺭﻓﺘﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﯾﮧ ﻟﻮﮒ ﺍﺱ ﻗﺒﯿﺢ ﻋﻤﻞ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻭﺍﭘﺲ ﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺗﻮ ﺍﻥ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﺑﭽﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺳﺴﮑﯿﺎﮞ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﺗﮏ ﺍﻥ ﮐﺎ ﭘﯿﭽﮭﺎ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻥ ﻇﺎﻟﻤﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﻟﻮﮞ ﭘﺮ ﺗﺎﻟﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺩﻝ ﻧﺮﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔

ﺑﻌﺾ ﺍﯾﺴﮯ ﻟﻮﮒ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﮯ ﺟﻦ ﺳﮯ ﺍﺳﻼﻡ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻣﺎﺿﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﯽ ﻏﻠﻄﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﯾﮏ ﻭﺍﻗﻌﮧ جو کہ علما سے ﺳﻨﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﻮ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﻟﮯ ﮐﮯ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺑﭽﯽ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﭘﮑﮍ ﺭﮐﮭﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻭﮦ ﺑﺎﭖ ﮐﮯ ﻟﻤﺲ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺧﻮﺵ ﺗﮭﯽ۔ ﻭﮦ ﺳﺎﺭﺍ ﺭﺳﺘﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﺗﻮﺗﻠﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺮﺗﯽ ﺭہی ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﻓﺮﻣﺎﺋﯿﺸﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﺗﯽ ﺭﮨﯽ، ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﺭﺍ ﺭاﺳﺘﮧ ﺍﺳﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻓﺮﻣﺎﺋﺸﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮩﻼﺗﺎ ﺭﮨﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﭘﮩﻨﭽﺎ۔

ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻗﺒﺮ ﮐﯽ ﺟﮕﮧ ﻣﻨﺘﺨﺐ ﮐﯽ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﯿﭽﮯ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺭﯾﺖ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﻟﮕﺎ۔ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﯿﭩﯽ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﺗﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﻟﮓ ﮔﺌﯽ۔ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﻨﮭﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﭩﯽ ﮐﮭﻮﺩﻧﮯ ﻟﮕﯽ۔ ﮨﻢ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺑﺎﭖ ﺑﯿﭩﯽ ﺭﯾﺖ ﮐﮭﻮﺩﺗﮯ ﺭﮨﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺩﻥ ﺻﺎﻑ ﮐﭙﮍﮮ ﭘﮩﻦ ﺭﮐﮭﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺭﯾﺖ ﮐﮭﻮﺩﻧﮯ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻣﯿﺮﮮ ﮐﭙﮍﻭﮞ ﭘﺮ ﻣﭩﯽ ﻟﮓ ﮔﺌﯽ۔ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﯿﭩﯽ ﻧﮯ ﮐﭙﮍﻭﮞ ﭘﺮ ﻣﭩﯽ ﺩﯾﮑﮭﯽ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺟﮭﺎﮌﮮ، ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺍﭘﻨﯽ ﻗﻤﯿﺾ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﭘﻮﻧﭽﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﻗﻤﯿﺾ ﺳﮯ ﺭﯾﺖ ﮔﮭﺎﮌﻧﮯ ﻟﮕﯽ۔

ﻗﺒﺮ ﺗﯿﺎﺭ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﻗﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﭩﮭﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻣﭩﯽ ﮈﺍﻟﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯼ۔ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﻨﮭﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﻣﭩﯽ ﮈﺍﻟﻨﮯ ﻟﮕﯽ۔ ﻭﮦ ﻣﭩﯽ ﮈﺍﻟﺘﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻗﮩﻘﮩﮧ ﻟﮕﺎﺗﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﻓﺮﻣﺎﺋﯿﺸﯿﮟ ﮐﺮﺗﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﺩﻝ ﮨﯽ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺟﮭﻮﭨﮯ ﺧﺪﺍؤﮞ ﺳﮯ ﺩﻋﺎ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺗﻢ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﯽ ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮ ﻟﻮ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﮔﻠﮯ ﺳﺎﻝ ﺑﯿﭩﺎ ﺩﮮ ﺩﻭ۔ ﻣﯿﮟ ﺩﻋﺎ ﮐﺮﺗﺎ ﺭﮨﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﭩﯽ ﺭﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﺩﻓﻦ ﮨﻮﺗﯽ ﺭﮨﯽ۔

ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺮ ﭘﺮ ﻣﭩﯽ ﮈﺍﻟﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯽ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺧﻮﻓﺰﺩﮦ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ۔ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺗﻮﺗﻠﮯ ﺯﺑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﭘﻮﭼﮭﺎ۔ "ﺍﺑﺎ ﺁﭖ ﭘﺮ ﻣﯿﺮﯼ ﺟﺎﻥ ﻗﺮﺑﺎﻥ، ﺁﭖ ﻣﺠﮭﮯ ﺭﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﻮﮞ ﺩﻓﻦ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ؟

ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻝ ﮐﻮ ﭘﺘﮭﺮ ﺑﻨﺎ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺗﯿﺰﯼ ﺳﮯ ﻗﺒﺮ ﭘﺮ ﺭﯾﺖ ﭘﮭﯿﻨﮑﻨﮯ ﻟﮕﺎ۔ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﯿﭩﯽ ﺭﻭﺗﯽ ﺭﮨﯽ ﭼﯿﺨﺘﯽ ﺭﮨﯽ، ﺩﮨﺎﺋﯿﺎﮞ ﺩﯾﺘﯽ ﺭﮨﯽ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺭﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﺯﻧﺪﮦ ﺩﻓﻦ ﮐﺮﺩﯾﺎ۔

ﯾﮧ ﻭﮦ ﻧﻘﻄﮧ ﺗﮭﺎ ﺟﮩﺎﮞ ﺭﺣﻤﺖ ﺍﻟﻌﺎﻟﻤﯿﻦ ﷺ ﮐﺎ ﺿﺒﻂ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﮮ ﮔﯿﺎ۔ ﺁﭖ ﷺ ﮐﯽ ﮨﭽﮑﯿﺎﮞ ﺑﻨﺪﮪ ﮔﺌﯿﮟ۔ ﺩﺍﮌﮬﯽ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺁﻧﺴﻮؤﮞ ﺳﮯ ﺗﺮ ﮨﻮﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺁﻭﺍﺯ ﺣﻠﻖ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﻣﯿﮟ ﮔﻮﻻ ﺑﻦ ﮐﺮ ﭘﮭﻨﺴﻨﮯ ﻟﮕﯽ۔ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺩﮬﺎﮌﯾﮟ ﻣﺎﺭ ﻣﺎﺭ ﮐﺮ ﺭﻭ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺭﺣﻤﺖ ﺍﻟﻌﺎﻟﻤﯿﻦ ﷺ ﮨﭽﮑﯿﺎﮞ ﻟﮯ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔

ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ۔ "ﯾﺎ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﷺ ﮐﯿﺎ ﻣﯿﺮﺍ ﯾﮧ ﮔﻨﺎﮦ ﺑﮭﯽ ﻣﻌﺎﻑ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ؟" ﺭﺣﻤﺖ ﺍﻟﻌﺎﻟﻤﯿﻦ ﷺ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﺷﮑﻮﮞ ﮐﯽ ﻧﮩﺮﯾﮟ ﺑﮩﮧ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔۔

ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻣﻌﺎﺷﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﻟﻮﮒ ﺍﺱ ﻧﻘﻄﮯ ﭘﺮ ﻏﻮﺭ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﮨﻤﯿﮟ ﺑﯿﭩﺎ ﮨﯽ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺍﭘﯿﻞ ﮐﺮتا ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﺧﺪﺍﺭﺍ ﺍﯾﺴﯽ ﮔﻨﺪﯼ ﺳﻮﭺ ﮐﻮ ﺧﺘﻢ ﮐﺮﯾﮟ۔۔

قرآن کریم کےمطابق مرد و زن کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نےبلا امتیاز مشیتِ ایزدی کے تحت پیدا فرمایا۔ قرآن کریم میں انسان کی پیدائش کوان الفاظ میں بیان کیاگیاہے۔۔

وَاللَّهُ خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ جَعَلَكُمْ أَزْوَاجًا وَمَا تَحْمِلُ مِنْ أُنثَىٰ وَلَا تَضَعُ إِلَّا بِعِلْمِهِ وَمَا يُعَمَّرُ مِن مُّعَمَّرٍ وَلَا يُنقَصُ مِنْ عُمُرِهِ إِلَّا فِي كِتَابٍ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ (سورۃ فاطر: 11)

اور اللہ نے تمہیں مٹی سے پھر نطفہ سے پیدا کیا ہے، پھر تمہیں جوڑا (میاں بیوی) بنایا، اور کسی عورت کو نہ کوئی حمل قرار پاتا ہے اور نہ وہ کوئی بچہ جنتی ہے مگر اسے اس کا علم ہوتا ہے، اور نہ کسی بڑی عمر والے کی عمر میں کوئی اضافہ ہوتا ہے، اور نہ اس کی عمر میں کوئی کمی ہوتی ہے، مگر یہ چیز لوح محفوظ میں لکھی ہوتی ہے، بے شک یہ کام اللہ کے لئے بڑا آسان ہے۔

ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎً ﻟﮍﮐﯿﺎﮞ ﮨﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﻣﺎﮞ ﺑﺎﭖ ﮐﯽ ﺍﺻﻞ ﻗﺪﺭ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ۔ بیٹیاں ماں باپ کو جنت میں لے کے جا سکتی ہیں۔۔

ایک اور واقعہ اسلام کی تاریخ میں ایک عورت اپنی دو بیٹیوں کو ساتھ لے کر ام المومنین عائشہؓ کی خدمت میں آئی، تو انہوں نے اس عورت کو تین کھجوریں دیں، اس عورت نے ایک ایک کھجور دونوں بیٹیوں کو دی، اور تیسری کھجور کے (بھی) دو ٹکڑے کرکے دونوں بیٹیوں کے درمیان تقسیم کردی، عائشہؓ کہتی ہیں کہ اس کے بعد نبی اکرم ﷺ تشریف لائے تو میں نے آپ ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺنے فرمایا: تمہیں تعجب کیوں ہے؟ وہ تو اس کام کی وجہ سے جنت میں داخل ہوگئی ہے۔

یہی واقعہ صحیح مسلم میں قدرے الفاظ کے اختلاف کے ساتھ اس طرح موجود ہے، ام المؤمنین عائشہؓ کہتی ہیں کہ:

جَاءَتْنِي مِسْكِينَةٌ تَحْمِلُ ابْنَتَيْنِ لَهَا، فأطْعَمْتُهَا ثَلَاثَ تَمَرَاتٍ، فأعْطَتْ كُلَّ وَاحِدَةٍ منهما تَمْرَةً، وَرَفَعَتْ إلى فِيهَا تَمْرَةً لِتَأْكُلَهَا، فَاسْتَطْعَمَتْهَا ابْنَتَاهَا، فَشَقَّتِ التَّمْرَةَ، الَّتي كَانَتْ تُرِيدُ أَنْ تَأْكُلَهَا بيْنَهُمَا، فأعْجَبَنِي شَأْنُهَا، فَذَكَرْتُ الذي صَنَعَتْ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وَسَلَّمَ، فَقالَ: إنَّ اللَّهَ قدْ أَوْجَبَ لَهَا بهَا الجَنَّةَ، أَوْ أَعْتَقَهَا بهَا مِنَ النَّارِ۔ (صحيح مسلم: 2630)

میرے پاس ایک مسکین عورت آئی، اس نے دو بچیاں اٹھائی ہوئی تھیں، میں نے اس کو تین کھجوریں دیں، اس نے ہر ایک بیٹی کو ایک ایک کھجور دی اور ایک خود کھانے کے لیے منہ کی طرف اٹھائی، لیکن اس کی دونوں بیٹیوں نے وہ کھجور بھی اس سے لینا چاہی، پس اس نے اس کھجور کے ٹکڑے کیے اور ان دونوں کو دے دیے، مجھے اس کی اس عمل نے تعجب میں ڈال دیا اور جب میں نے اس کا عمل رسول اللہ ﷺ سے ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: تمہیں تعجب کیوں ہے؟ اللہ تعالیٰ نے اسی کام کی وجہ سے اس کو جنت میں داخل کر دیا ہے اور جہنم سے آزاد کر دیا ہے۔

بیٹے بیٹی کو برابر کا حق دیں اولاد میں برابری نہ ہونے اور بیٹے کو بیٹی پر ترجیح دینے کے باعث بچیوں کی نشوونما نفسیاتی الجھنوں، حسد اور نفرت کے ساتھ ہوتی ہے اور ایسی بچیاں بے حس اور خود غرض ہو جاتی ہیں۔ بہت سے والدین جو اپنے بیٹے کو نازونخرے سے پالتے ہیں اس کی ہر خواہش پوری کرتے ہیں اور بیٹی کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں بات بات پہ ٹوکتے ہیں ایسی بیٹیاں احساس ذمہ داری سے محروم ہو کر احساس کمتری کا شکار ہو جاتی ہیں اور ان کی خود اعتمادی ختم ہو جاتی ہے۔

ایک حقیقت اپکے سامنے رکھتا ہوں، سسرال میں جانے کے بعد ان بیٹیوں بہنوں کو ناجانے کیا کیا مصائب سے گزرنا پڑے جب تک تمہارے ساتھ ہیں تب تک تو انہیں سکون پہنچنا چاہیے اور جب کبھی یہ بہن بیٹی سسرال سے واپس اپنے آبائی گھر لوٹے تو تیوری چڑھانے کی بجائے خوش دلی سے ملاقات کیا کرو ہوسکتا وہ سسرال کے ہزاروں دکھوں کی ستائی ہوئی چند ٹھنڈی سانسیں لینے تمہارے گھر آئی ہو۔

اگر تحریر اچھی لگے تو مجھ بندہ ناچیز کو دعاوں میں یاد رکھیے گا۔

Check Also

Fahash Tarkari

By Zubair Hafeez