Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Malik Asad Jootah
  4. Akhlaq Aur Ehsas Ki Baqa Islam Ki Sar Bulandi Hai

Akhlaq Aur Ehsas Ki Baqa Islam Ki Sar Bulandi Hai

اخلاق اور احساس کی بقاء اسلام کی سربلندی ہے

ایک وہ وقت بھی تھا جب "دوکاندار کے پاس کھوٹا سکا چلا دینا ہی سب سے بڑا فراڈ سمجھا جاتا تھا"۔

یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب:

ماسٹر اگر بچے کو مارتا تھا تو بچہ گھر آ کر اپنے باپ کو نہیں بتاتا تھا، اور اگر بتاتا تو باپ اْسے ایک اور تھپڑ رسید کر دیتا تھا۔

یہ وہ دور تھا جب "اکیڈمی" کا کوئی تصّور نہ تھا اور ٹیوشن پڑھنے والے بچے نکمے شمار ہوتے تھے۔

بڑے بھائیوں کے کپڑے چھوٹے بھائیوں کے استعمال میں آتے تھے اور یہ کوئی معیوب بات نہیں سمجھی جاتی تھی۔

لڑائی کے موقع پر کوئی ہتھیار نہیں نکالتا تھا، صرف اتنا کہنا کافی ہوتا "میں تمہارے ابا جی سے شکایت کروں گا۔ " یہ سنتے ہی فریق کا خون خشک ہو جاتا تھا۔

اْس وقت کے اباجی بھی کمال کے تھے، صبح سویرے فجر کے وقت کڑک دار آواز میں سب کو نماز کے لیے اٹھا دیا کرتے تھے۔ بے طلب عبادتیں کرنا ہر گھر کا معمول تھا۔

کسی گھر میں مہمان آ جاتا تو ہمسائے حسرت بھری نظروں سے اْس گھر کو دیکھنے لگتے اور فرمائشیں کی جاتیں کہ "مہمانوں" کو ہمارے گھر بھی لے کر آئیں۔ جس گھر میں مہمان آتا تھا وہاں پیٹی میں رکھے، فینائل کی خوشبو ملے بستر نکالے جاتے۔ خوش آمدید اور شعروں کی کڑھائی والے تکئے رکھے جاتے۔ مہمان کے لیے دھلا ہوا تولیہ لٹکایا جاتا اور غسل خانے میں نئے صابن کی ٹکیا سجائی جاتی تھی۔

جس دن مہمان نے رخصت ہونا ہوتا تھا، سارے گھر والوں کی آنکھوں میں اداسی کے آنسو ہوتے تھے۔ مہمان جاتے ہوئے کسی چھوٹے بچے کو دس روپے کا نوٹ پکڑانے کی کوشش کرتا تو پورا گھر اس پر احتجاج کرتے ہوئے نوٹ واپس کرنے میں لگ جاتا، مگر مہمان بہر صورت یہ نوٹ دے کر ہی جاتا۔

شادی بیاہوں میں سارا محلہ شریک ہوتا تھا۔ شادی غمی میں آنے جانے کے لیے ایک جوڑا کپڑوں کا علیحدہ سے رکھا جاتا تھا جو اِسی موقع پر استعمال میں لایا جاتا تھا۔ جس گھر میں شادی ہوتی تھی اْن کے مہمان اکثر محلے کے دیگر گھروں میں ٹھہرائے جاتے تھے۔ محلے کی جس لڑکی کی شادی ہوتی تھی بعد میں پورا محلہ باری باری میاں بیوی کی دعوت کرتا تھا۔

کبھی کسی نے اپنا عقیدہ کسی پر تھوپنے کی کوشش نہیں کی، کبھی کافر کافر کے نعرے نہیں لگے، سب کا رونا ہنسنا سانجھا تھا، سب کے دْکھ ایک جیسے تھے۔

نہ کوئی غریب تھا نہ کوئی امیر، سب خوشحال تھے۔ کسی کسی گھر میں بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی ہوتا تھا اور سارے محلے کے بچے وہیں۔ لیکن اب کے حالات دیکھتا ہوں دل خون کے آنسو روتا ہے۔ یہاں بھائی بھائی کا دوشمن بنا ہوا ہے۔ پہلے لوگ ہر کام میں ایک دوسرے سے مشورہ لیتے تھے۔ اب وہ دور کہاں۔ آج کل تو خون کے رشتوں میں بھی وفا نہی رہی۔ پہلے زمانے میں لوگ ایک دوسرے سے اخلاق سے پیش آتے تھے۔ لیکن اب اخلاق کا نام تک نہی رہا۔ انسان کہتا ہے کہ میں نے ترقی کر لی ہے میرا آنے والا کل میرے گزرے ہوے کل سے بہتر ہے۔ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارا مستقبل کا ہر لمحہ اخلاقی اور سماجی امور کے پیش نظر ہمارے ماضی سے بدتر ہے۔

دیگر مذاہب کے لوگ کچھ بھی کرتے پھریں مگر مسلم ملت کا یہ فرض ہے کہ اسلامی تہذیب و تمدن کو برقرار رکھیں درحقیقت احسن اخلاقی و سماجی امور اسلام ہی کا درس ہے اس لیے اس درس کی بقاء اسلام کی سربلندی ہے اور اسلام کی سربلندی سے بڑھ کر اک مسلمان کے لیے اور کچھ نہیں۔ ہم میں اپنی تحریر کا اختتام چند گزارشات سے کرنا چاہتا ہوں۔ غریبوں کا احساس کریں احساس بہت بڑی نیکی اور حسنِ اسلام ہے۔ اور ہم پر اپنا اخلاق ٹھیک کر لینا لازم ہے۔ اخلاق ہی ہمارے لیے سب کچھ ہے۔ میرے دادا ابو اخلاق کے بارے میں کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ رزق کی طرح اچھے اخلاق کی بھی تقسیم فرماتا ہے۔

رزق سب کو لیکن اخلاق حسنہ اپنے پسندیدہ بندوں کو دیتا ہے۔ (غلام جعفر)

لیکن اس کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ جب ہم ان چیزوں کا خیال رکھیں گے تو انشاءالله پھر ہماری زندگی خوشگوار بن جائے گی انشااللہ انشااللہ۔

Check Also

Bushra Bibi Hum Tumhare Sath Hain

By Gul Bakhshalvi