Suqrat Ya Danishwar, Faisla Karna Parta Hai
سقراط یا دانشور، فیصلہ کرنا پڑتا ہے
مقدس معبد کی دیوی سے قبل مسیح کے ایتھنز میں جب سوال کیا گیا کہ کیا ایتھنز میں سقراط سے عقلمند بھی کوئی شخص موجود ہے تو دیوی نے بلاجھجک جواب دیا کہ نہیں سقراط ہی ایتھنز کا سب سے عقلمند شخص ہے۔ سقراط تک دیوی کی یہ بات پہنچی تو متعجب ہوا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ وہ کچھ نہیں جانتا۔ اس پر اس کو تجسس بھی ہوا کہ چلو چل دیکھیں اصل میں شہر میں سب سے عقلمند اور دانا کون ہے۔
سقراط نے ایک کے بعد ایک فلاسفر، شاعر، واعظ، مفکر، اور عالم چھان ڈالے اور ہر ایک سے ملاقات کے بعد حیران ہوتا رہا۔ جن سوالوں کے جواب سقراط غلط نہیں دینا چاہتا تھا، اور جانتا تھا کہ ان کے جوابات انسانی عقل کے پاس موجود ہی نہیں ہیں، وہ تمام بظاہر دانشور لوگ آسانی سے وہی غلط جواب سقراط کو عنائت کرتے جا رہے تھے۔
کئی ملاقاتوں پر مشتمل سفر کے اختتام پر سقراط ایک حیران کن افسردگی میں مبتلا ہوگیا۔ وہ جان گیا تھا کہ شہر میں سب سے عقلمند شخص وہ خود ہی ہے۔ مگر وہ افسردہ اس لیے تھا کہ اس کی عقلمندی کی سطح صرف اس ادراک تک تھی کہ وہ اپنے وجود سے لے کر کائنات تک کسی کے بارے میں کچھ بھی یقین سے نہیں جانتا۔ بس یہی کل علم تھا اس کے پاس۔ جبکہ شہر میں جو لوگ دانشور بنے بیٹھے تھے، سب کے سب خود کو اور باقیوں کو ایک ایسی جہالت بانٹ رہے تھے جس کی کوئی اصل نہیں تھی۔ وہ سب یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ وہ نہیں جانتے۔
دوستو، سقراط کا قصہ یہیں تک۔ دانشوری کے سفر میں ایک وقت آتا ہے جب ایک انسان یہ جان جاتا ہے کہ اسکی مانند باقی سب بھی کچھ نہیں جانتے۔ جن کو وہ علم کے مینار سمجھا کرتا تھا، وہ محض ایک واہمے کا شکار ہیں کہ وہ سب جان چکے ہیں۔ یا پھر جان کر اسی "چمکدار دانشوری چولے" کو پہنے رکھنا چاہتے ہیں جو انکو باقی عوام میں ممتاز کرتا ہے۔ ایسے میں علم کے متلاشی کو دو میں سے ایک فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔ وہ بھی وہ سنہری چولا پہن کر اپنا معبد سجا لے اور عقیدت کے پجاریوں میں جھوٹا گیان بانٹنا شروع کر دے یا علم کے رب کی تلاش میں آگے بڑھتا رہے اور اپنے آپ کو فنا کر دے۔