Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mahmood Fiaz
  4. Imran Khan Ki Hukumat

Imran Khan Ki Hukumat

عمران خان کی حکومت

عمران خان نے آئین کے اندر رہتے ہوئے وہی کچھ کیا جو اسکے مخالفین کرتے۔ یقیناً کچھ اور حالات میں اس سے بہتر کیا جا سکتا ہوگا۔ مگر عمران خان سے آئیڈیل ردعمل مانگنے والے مجھے شروع ہی سے احمق لگتے ہیں، یا مخالفین کے برین واشڈ زومبیزتفصیل میں جاتے ہیں۔ ہر کھیل کے اصول ہوتے ہیں۔ فٹ بال کا اصول ہے کہ بال کو ہاتھ سے ٹچ نہیں کرنا۔

اب اگر مخالف ٹیم والے بال کو ہاتھوں سے اچھالتے گول کی طرف لاتے جائیں، اور آپ سے کہا جائے کہ نہیں جناب، آپ نے بال کو صرف پاؤں سے ہٹ کرنا ہے تو ایسا کہنے والے یقیناً حماقت کے اعلی درجوں پر ہونگے۔ عمران خان اس ملک کی سیاست میں ہے جہاں سو فیصد رائے عامہ یہی ہے کہ سیاست ایک گند ہے۔ گندا جوہڑ ہے، اور اس میں جانے والا بھی گند کا شکار ہو جائیگا۔ اس لیے سیاست میں صرف وہی جائے جس کو گندا ہونا ہے۔ ایسے میں عمران خان سے سفید کپڑوں پر داغ کی امید نہ رکھنے والے بھی اوپر والے پیراگراف جیسے ہی ہیں۔

اس ملک کی سیاست میں جہاں ایک شخص پورے سسٹم کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتا، واضح طور پر جھوٹی میڈیکل رپورٹس بنواتا ہے، اور ملک سے فرار ہو جاتا ہے۔ اور اس ملک کی عدالتیں اس کا کچھ نہیں بگاڑ نہیں پاتیں۔ اور اس جماعت کے فالورز کو آئین و قانون کی یاد نہیں آتی، بلکہ وہ زیر لب مسکراتے ہیں اور انکی آنکھوں میں فخر جھلکتا ہے کہ انکا لیڈر کس قدر "چالباز اور مکار" ہے کہ ان کے ملک کے عدالتی نظام کو جذباتی بلیک میل کر کے یا مینی پولیٹ کر کے "نکل گیا"۔

اسی ملک کی سیاست میں جس کو تیس چالیس سال سے مسلسل باریاں لگا کر لوٹا گیا، اور اسکا نظام انصاف "ایک پیسے کی کرپشن" ثابت نہ کر سکا۔ جبکہ ملک لٹا ہے، اس کا حال آنکھوں کے سامنے ہے۔ اور اس لوٹ مار کے دوران جو حکمران تھے، وہ بھی عدالت کے سامنے ہیں، مگر "ثبوت کوئی نہیں نظر آتا"۔ قانون تو اندھا تھا، یہاں تو انصاف دینے والے بھی آنکھوں پر پٹیاں باندھ لیتےہیں، اپنی اپنی جماعتی وابستگی کی، یا لیکڈ ویڈیوز کی، جو انکی بیک ڈور تعلقات ہی کی عکاس ہوتی ہیں۔

اسی ملک کی سیاست میں، جہاں زرداری مسٹر ٹین پرسنٹ مشہور ہے، کروڑوں کے بھتے کی خبریں عام و خاص جانتے ہیں۔ جس کے ایان علی اور عزیر بلوچ جیسے ٹیم پلئیر ہیں۔ جو سب پر بھاری اس لیے ہے کہ سب کی بولی لگا سکتا ہے۔ اور بکنے والے بکتے ہیں۔ ایسی سیاست میں عمران خان نے کسی قانون کو توڑے بغیر الیکٹیبل کچرے، اور دیگر سیاسی حرکیات کے ساتھ 2018 میں اپنی حکومت بنائی۔

جس کو سیلیکٹڈ وزیراعظم کہا گیا۔ حالانکہ اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد تھی، اسکی اپنی مقبولیت تھی، یا الیکٹیبلز کی سیاست، یہ سارے وہ حربے تھے، جن کی بنیاد پر ہی نون و پی پی والے بھی حکومت میں آتے تھے۔ مگر انکو ایسا کہتے کبھی شرم نہیں آئی، بلکہ عمران خان حکومت کے خلاف دوبارہ اسٹیبلشمنٹ ہی کے جوتے چاٹتے بھی حیا نہیں آئی کہ کم از کم اس وقت وہ حرکت نہ کریں جس کا الزام وہ عمران خان کو دیتے آ رہے ہیں۔

عمران خان کی حکومت میں لاکھ خامیاں تھیں، مگر وہ بچ سکتا تھا اگر وہ اس سیاسی کچرے کا "حق لوٹ مار" مان لیتا۔ باریاں لینے والے عمران خان کو بھی تیسری باری دینے کو تیار ہو جاتے۔ "بھئی رل مل کر کھانے میں ہرج ہی کیا ہوتا ہے، پاکستان کی پلیٹ میں ابھی بہت کھانا ہے "۔ مگر عمران خان کی یہی "غلطی" تھی جس کی وجہ سے نسلوں سے ایک دوسرے کی عزت و مال کے پیاسے اکٹھے ہو گئے۔ جنہوں نے ایک دوسرے کو سڑکوں پر گھسیٹنا تھا، انہوں نے (کسی بھی اخلاقی اصول کی پرواہ کیے بغیر) ایک دوسرے سے ہاتھ ملا لیے۔ ایجنڈہ صرف عمران خان کو نکالنا تھا۔

سیاسی، اخلاقی، قانونی اور آئینی دھجیاں اڑاتا یہ سیاسی کچرہ گروہ جب عمران خان کے خلاف کچھ نہ کر سکا تو انکی مایوسی دیکھنے والی تھی۔ فضل الرحمن نے کم از کم تین مرتبہ (مذہبی نعروں سے گھیر کر لائے مدرسہ طلبا کے ساتھ) اسلام آباد پر چڑھائی کی مگر کچھ ہاتھ نہ آیا، مذہبی بیانیے کو بدترین سیاسی نعرے بنا کر استعمال کیا گیا۔ توہین رسالت قانون، اور عمران کو یہودی ایجنٹ قرا ر دینے جیسے ہتھکنڈے استعمال کرتے ان کو کسی اخلاقی کمتری کا احساس نہیں ہوا۔

اسلامی جمہوریہ جیسا نام رکھے ملک میں فضل الرحمن جیسا سیاسی بندہ اسلام کا ایسا استعمال بھی کر سکتا ہے کہ وہ "پانچ لاکھ علما" کا حوالہ دے کر حکومت پر منکر کا فتوی لگائے، اور پورے ملک کے علماء خاموش رہیں؟ سپریم کورٹ خاموش رہے؟ ان حالات میں جب عمران خان ایبسولوٹلی ناٹ کا رستہ اختیار کرتا ہے اور مغربی آقاؤں کا ناراض کرتا ہے تو جیسا کہ انکل سام کی عادت ہے، اپنی حکم عدولی کرنے والے کو نشان عبرت بنا دینا۔ نظام حرکت میں آتا ہے۔

پاکستانی سفیر کے ذریعے دنیا کا چوہدری واضح طور پر پاکستان کو اپنا کمی سمجھ کر پیغام دیتا ہے کہ اپنی اوقات میں رہو گے تو تمام خطائیں معاف، ورنہ بہت برا حشر کریں گے، سیاسی کچرے کی حکومت ہوتی تو فوری پینٹ اتار کر "تحفہ قبول کرو" کا نعرہ لگاتے۔ مگر افسوس حکومت اس شخص کی تھی، جو پہلے ہی نکو نک تھا کہ جس جگہ ہاتھ ڈالتا تھا، مافیا آنکھیں دکھاتا ہے۔ کچھ اسی اپنی نالائقیاں بھی تھیں، اور کچھ الیکٹیبلز کی حرمزدگیاں۔

عمران خان کے بھاگوں چھینکا ٹوٹآ، اسکو سمجھ میں پہلے ہی آچکا تھا کہ موجودہ صورتحال میں وہ اس سے بہتر پرفارم نہیں کر سکتا (حالانکہ کے کورونا کے باوجود ساٹھ فیصد اکنامک اعشاریے اسکے حق میں تھے، البتہ گورننس میں اسکی حکومت بری طرح ناکام تھی)۔ سو عمران خان نے اس دھمکی نما سفارتی مشورے کو اپنی سیاسی مقصد کے لیے استعمال کیا۔ ایسا نہیں کہ یہ عمران خان کا سوچا سمجھا پلان تھا (اتنا ماہر نہیں ہے وہ) بلکہ یہ اس کے فطری رجحان کے مطابق تھا، کہ وہ سخت جواب دیتا۔ اور اس نے دیا۔

عمران خان نے اس سفارتی خط کو عوام کے سامنے رکھا۔ اور پھر سلامتی کونسل کے سامنے بھی لے گیا (جس سے اس کی قانونی حیثیت اسٹیبلش ہو گئی)، ادھر سیاسی کچرہ اپوزیشن کو یہ موقع آسمانی نظر آیا کہ اب عمران خان کی حکومت گرانے کا فیصلہ چونکہ باہر سے آ گیا ہے تو اب تو یہ ہوگا ہی ہوگا۔ وہ پہلے بھی ایکٹو تھے، اب ان میں جوش بھر گیا۔ اب کچھ معاملات ہمیشہ کی طرح پاکستانی سیاست میں مشکوک رہینگے۔ جیسے کہ نواز شریف و دیگر نے کن غیر ملکی سفارتی لوگوں سے رابطے کی، کس ملک نے فنڈنگ کی کن لوگوں کو پیسے دیے گئے، کیونکہ پوچھنے پر سب کی سنی لیون، نیک پروین نکلے گی۔

لیکن عدم اعتماد کی تحریک، منحرف اراکین کی ٹائمنگ، سفارتی مشورے کی زبان مل کر جو بھی تصویر بنائیں، وہ یہی ہے کہ دال پوری کالی ہے۔ اور یہی عمران خان کا موقف تھا۔ ان حالات میں عمران خان حکومت کے پاس جو دستیاب آپشنز تھے۔ انہوں نے انہی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا۔ جب سلامتی کونسل نے یہ مان لیا کہ سفارتی خط میں دھمکی موجود ہے۔ اور اسکی زبان و بیان میں غیر ملکی مداخلت ہے۔

جب یہ اسٹیبلش ہو گیا کہ محرف اراکین کا انحراف، تحریک عدم اعتماد کی ٹائمنگ اس خط میں لکھی عبارت ہی کا ترجمہ ہیں۔ تو انہی وجوہات کو بنیاد بنا کر اسپیکر قومی اسمبلی نے اپنا اختیار استعمال کیا اور تحریک عدم اعتماد مسترد کر دی۔ (اسپیکر کو یہ اختیار تھا یا نہیں؟ اس کا فیصلہ سپریم کورٹ کی تشریح کرگی، اور جہاں تک مجھے علم ہے سپریم کورٹ صرف نکات کی تشریح کر سکتی ہے، عمل درامد پھر الگ معاملہ ہے)۔

جب اسپیکر نے تحریک عدم اعتماد مسترد کر دی، تو اب اسمبلی میں وزیراعظم کے اختیارات وہی ہیں جو تحریک عدم اعتماد سے پہلے تھے۔ انہی اختیارات میں سے ایک اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اختیار تھا، جس کو عمران خان نے استعمال کرتے ہوئے اسمبلیاں تحلیل کرنے کی تجویز صدر پاکستان کو دی، جنہوں نے اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے اسمبلیاں تحلیل کر دیں۔

اب جو لوگ رو رہے ہیں کہ عمران خان نے غیر آئینی کام کیا ہے، اول تو انکو یہ سمجھنا چاہئیے کہ عمران خان نے آئینی رستہ ہی ڈھونڈ نکالا ہے۔ آئین میں غداری، سازش، اور اسپیکر کے جو بھی اختیارات ہونگے، انہی کے تحت معاملات سپریم کورٹ سے کلئیر ہو جائنگے، البتہ جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ عمران خان کو "صاف شفاف اچھے بچوں والا آئینی حکم" مان لینا چاہئیے تھا، جو وہ بنا سنوار کر اس کے لیے لا رہے تھے۔

تو وہ احمق الاحمقاں ہیں، یعنی کہ آپ تو اسکے بندے خریدو، گھیرو، اور انکو سندھ ہاؤس میں چڑیا گھر بنا کر بٹھاؤ، بولیاں لگاؤ، غیر ملی آقاؤں سے روابط بھی رکھو، ان سے مدد بھی مانگو، ملکی عدلیہ میں نقب لگاؤ، ججز کو بلیک میل کرو، جھوٹی میڈیکل رپورٹس جمع کرواؤ، نیب سے بچنے کو ہسپتالوں داخل ہو جاؤ، میڈیائی طوائفوں کو سرعام نچاؤ، اور اپنے حق میں بیانیہ تخلیق کرواؤ، اور عمران خان تمہاری نو بال پر آؤٹ ہو کر گھر چلا جائے؟

اگر ایسا سمجھتے ہو تو جان لو کہ عمران خان تمہارا برا خواب ہے، اور اس خواب کا دوسرا حصہ اب شروع ہوا ہے۔

Check Also

Elon Musk Ka Vision

By Muhammad Saqib