Thursday, 10 October 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mahmood Fiaz
  4. Bioresonance Therapy

Bioresonance Therapy

بائیوریزونینس تھراپی

میں آلٹرنیٹو میڈیسن کا قائل ہوں۔ ہربل ادویات، آرگینک غذائیں، اور ہومیوپیتھک دوا میری زندگی بھر کے تجربات میں شامل ہیں۔ اور یہ تجربات میں نے خود اپنے آپ پر، اپنی فیملی، بیوی بچوں پر آزمائے ہیں۔ سعودیہ میں جاب کے دوران میرے پاس ٹاپ کلاس ہیلتھ انشورنس رہی، جو سعودیہ کے بہترین ہسپتالوں میں علاج کی بہترین سہولیات دیتی تھی۔ وہاں کے ہسپتال بھی ایسے تھے کہ کچھ پر فائیو اسٹار ہوٹل کا گمان گزرتا تھا۔ وہاں تو ہم کینٹین پر پیزا اور سلاد ہی انجوائے کرتے رہتے (اگر کبھی جاتے)۔

مگر اس سب کے باوجود میں نے اپنے بچوں کو ابتدائی سالوں میں ہر بخار، انفیکشن میں ہربل قہوے، گھریلو ٹوٹکے، اور سادہ کھچڑی سے گزارا کروایا۔ اس کا نتیجہ الحمدللہ یہ نکلا کہ میرے دونوں بچوں کا امیون سسٹم ہمیشہ اچھا رہا اور انکو کم کم ہی اینٹی بائیوٹک کی ضرورت پیش آئی۔ ہومیوپیتھی میں میں خود بھی اپنے لیے دوا تجویز کر لیتا ہوں اور اپنی بیگم کا علاج بھی کرتا رہتا ہوں۔ مگر دوسروں کو ہمیشہ کسی مستند ہومیوپیتھک کی طرف ریفر کر دیتا ہوں تاکہ پروفیشنل مدد مل سکے۔ اپنے بچوں کو بنیادی دوائیں میں خود دیتا ہوں۔ ہومیوپیتھی کی۔

اپنی زندگی میں میں نے اپنی اور بیگم کی کئی بیماریوں میں ہومیوپیتھی دوا کا معجزاتی اثر دیکھا اور میرا ایمان اس پر ہمیشہ پختہ ہوا۔ کچھ ماہ پہلے ایک عزیزہ کو چھاتی میں گلٹیوں کی تشخیص ہوئی، وہ چونکہ ایک ہسپتال میں کام کرتی تھی، اس لیے سرجن نے فوری سرجری کا مشورہ دیا کہ یہ گلٹیاں کینسر کی شکل اختیار کر لیں گی۔ جبکہ کراچی میں ہومیو ڈاکٹر فراز صاحب سے مشورہ کیا تو انہوں نے صرف ایک جملے میں تشفی کر دی۔ بقول انکے لوہا لگنے کے بعد کینسر ہونا کنفرم ہو جاتا ہے۔ ابھی علاج کی گنجائش باقی ہے۔

اللہ کا نام لے کر اس عزیزہ کو ہومیو علاج کے لیے والٹن کے قریب ڈاکٹر جمیل کے کلینک ریفر کر دیا۔ آج چھ ماہ کے بعد اس عزیزہ کی گلٹیاں ختم ہو چکی ہیں بخار اور علامات پہلے ہی جا چکے تھے۔ ابھی دوا جاری ہے تاکہ دوبارہ نہ ابھر سکیں۔ ہومیوپیتھی کے بعد سال بھر پہلے میرا تعارف بائیوریزونینس تھراپی سے ہوا ہے۔ ہومیو کے بعد اور کچھ لاعلاج امراض جن میں ہومیو ڈاکٹر کی مہارت کام نہ آ رہی ہو، میں نے اس علاج میں کافی معجزاتی اثر دیکھا ہے۔

بائیوریزونینس میں برقی یا صوتی لہروں سے علاج کیا جاتا ہے اور کافی افیکٹو ہوتا ہے۔ ابھی ڈاکٹر صاحب کے زیر علاج مریضوں کی ہسٹری دیکھ رہا تھا۔ ایک مائیگرین کے مریض کو صرف پانچ تھراپی سیشن میں آرام آ گیا جس کو پہلے کسی دوائی سے فرق نہیں پڑتا تھا۔ ایک سی پی چائلڈ، یعنی ایسا بچہ جو دماغی فالج کی وجہ سے چل پھر نہیں سکتا تھا، دو سے تین ماہ کے علاج کے بعد اب سائیکل چلانے لگا ہے اور ٹانگوں کی سختی بھی کم ہوگئی ہے، عمر اسکی چھ سال ہے۔

ایک مریض جس کو پلیٹلیٹس کم ہونے کی بیماری تھی، اس کے علاج کے بعد اب روزے رکھ رہا ہے ورنہ پہلے روزے میں بیہوشی ہو جاتی تھی، اور کمزوری رہتی تھی۔ اور ایسے بیشمار مریض ہیں، مگر یہ چند وہ ہیں جو حال ہی میں میرے دیکھتے دیکھتے علاج شروع کرکے شفا یاب ہو رہے ہیں۔ نفسیاتی امراض پر بائیوریزونینس کا اثر میری خصوصی دلچسپی ہے۔ اور میری اس سلسلے میں ڈاکٹر علی خالد صاحب سے بات چیت بھی رہتی ہے۔ آٹزم کے علاج کے لیے میں ان سے اکثر تفصیلی بات چیت کرتا ہوں۔ کیونکہ میرا بیٹا بھی آٹسٹک ہے اور سال بھر سے انکے زیر علاج ہے۔

حال ہی میں مجھے لگا کہ یہ علاج فضول میں وقت کا ضیاع ہے کیونکہ بیٹے کی علامات میں کوئی بہتری کافی عرصے سے دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کو بتائے بغیر علاج موقوف کر دیا۔ چند ہفتوں میں کچھ ایسی علامات جو ہم بھول چکے تھے، واپس آنے لگیں۔ مجھے حیرانی ہوئی کہ اس علاج نے ان علامات کو کنٹرول کر رکھا تھا، اور ہم بہتری کی طرف جا رہے تھے مگر علاج ادھورا چھوڑ کر ہم واپسی کے سفر پر ہیں۔

بائیوریزونینس کو ذاتی تجربے کی بناء پر دوسروں کو ریفر کرنے میں مجھے جو مشکل تھی وہ خود کو قائل کرنا تھا کہ میں آپ کو ایک ایسے علاج کا بتاؤں جس کا مجھے ذاتی تجربہ نہ ہو، یا جس سے مجھے ذاتی فائدہ نہ ہوا ہو۔ مجھے بیشمار مریضوں کو دیکھنے کے باوجود یہ خیال تھا کہ میرے بیٹے کے لیے یہ اتنی افیکٹو ثابت نہیں ہوئی۔ مگر حالیہ علامات کے واپس آنے اور پھر دوبارہ اس تھراپی سے ٹھیک ہونے پر مجھے یقین ہوگیا کہ بیٹے کے علاج میں جو بہتری آئی ہے وہ اسی ایک تھراپی کی وجہ سے آئی ہے اور دوسرا کوئی سورس نہیں ہے اس بہتری کا۔

آٹزم چونکہ ان جدید نفسیاتی چیلنجز میں سے ہیں جو دنیا کو درپیش ہیں کیونکہ ہر چالیس میں سے ایک بچہ اسکا شکار ہے۔ اس کو امریکہ جیسے ممالک میں بیماری بھی نہیں سمجھا جاتا بلکہ ایک مختلف دماغ کہا جاتا ہے۔ لیکن اس مختلف دماغی کیفیت میں آٹسٹک بچے کئی معاملات میں والدین کے لیے چیلنج بن جاتے ہیں۔

آٹسٹک بچوں میں سونے جاگنے کی عادات، کھانے پینے کے مسائل، باتھ روم جانے کی عادات، اور خؤد کو یا دوسروں کو نقصان پہنچانے کے کئی ایسے معاملات ہوتے ہیں جو اگر بہتر ہو جائیں تو یہ بچے کہیں بہتر زندگی گزار سکتے ہیں۔ میں اپنے بیٹے کی ساری علامات تو بوجہ پرائیویسی نہیں لکھونگا، مگر آپ میں سے ایسے والدین کو ایک تسلی ضرور دے سکتا ہوں کہ اگر آپ کا بچہ آٹسٹک ہے تو ایک بار اس طریقہ علاج کو ضرور آزمائیے، اگر آپ کا بچہ ففٹی پرسنٹ چیزوں میں بھی بہتری محسوس کریگا، تو آپکی زندگی میں سو فیصد سکون آئیگا۔ میری بس یہیں تک ریکمنڈیشن ہے۔

Check Also

Dr Zakir Naik Aur Unke Mezbano Se

By Zulfiqar Ahmed Cheema