Tuesday, 07 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Maaz Bin Mahmood/
  4. Wama Alaina Illa Nikah

Wama Alaina Illa Nikah

وما علینا الا النکاح

زندگی کا حسن جانے کہاں کہاں ڈھونڈتا رہا تاہم کیکڑے، کینگرو، جی الیون کی "خاص ترین چائے"، بھٹی صاحب کے خراٹوں اور دودھ جلیبی کے بعد اختلافِ رائے میں بھی دکھائی دیا۔ پس اسی لیے کامران طفیل صاحب آج کل ایویں حسین معلوم ہونے لگے ہیں۔

عمران کے دورِ حکومت میں رہی فرعونیت پر کئی احباب اکٹھے تھے۔ آج اختلاف رائے سامنے آرہا ہے تو اس پر بات ہونی چاہئے اور مناسب طریقے سے ہونی چاہیے۔ اسی ضمن میں جاری اظہار خیال کے سلسلے کی ایک اور کڑی یہ تحریر ہے۔ کامران طفیل صاحب نے اس ضمن میں مزید تفصیلی بات کی ہے جس کے چیدہ نکات پر باچیز کی رائے پیش خدمت ہے۔

غالباً 2008 الیکشن کے بعد ایک وقت آیا تھا جب مریم نواز کو کسی کھاتے میں سیاست میں اتارا جا رہا تھا۔ مجھے بہت اچھی طرح یہ بات یاد ہے کہ اس وقت مسلم لیگ نواز کے شدھ مقلدین نے باقاعدہ اس پر کیمپین چلائی تھی جس کا لب لباب یہ تھا کہ مریم نواز کو بغیر کسی سیاسی محاذ پر لڑائے سیاسی عہدہ عطاء کرنا غلط ہے۔ اس ضمن میں میری کوشش ہوگی کہ تب کے احباب جن میں بھٹی صاحب شامل ہیں، پرانی تحاریر ڈھونڈ کر دکھائیں کیونکہ میری پرانی آئی ڈی کا پروگرام 2020 فروری میں شہید ہوگیا تھا۔

موروثی سیاست میں ٹروڈو سے نکے بش تک یا گاندھی پریوار کی موجودگی کے باوجود موروثی سیاست کوئی اپیلنگ تصور نہیں، مگر کیا کیجیے اس فوج کا جس نے نواز شریف کو رگڑا لگانے کے چکر میں مریم نواز کو سیاست میں اتارنے کا واضح جواز فراہم کیا۔ کامران طفیل صاحب کے فاضل دوست کے ممدوح کی نسبت جن کی اہلیہ خدا کی پیاری ہوئیں تو انہوں نے وہ موقع بلاول کے لانچنگ پیڈ کے لیے بلا اشتعال استعمال کیا، مریم نواز کی سیاست میں دخل اندازی باقاعدہ فوجی اشتعال کے باعث ہی ممکن ہو پائی۔ لہٰذا یہ کہنا کہ مریم نواز کی خوبی نواز شریف کے گھر پیدا ہونا ہے، اگر یکسر غلط نہیں تو مکمل درست بھی نہیں۔ اگلے کافی محنت کرکے نواز شریف کی نسل اس کھیل میں لائے ہیں۔

دو ہزار سترہ میں نواز شریف کو سنگل آؤٹ نہیں بلکہ عمران خان کو پرامنینٹ کیا جا رہا تھا۔ اس کی قیمت اے این پی سے متحدہ تک، پیپلز پارٹی سے مسلم لیگ تک سبھی کو جہاں تک ممکن تھا سائیڈ لائن کروا کر ادا کی گئی۔ آج صرف عمران خان کو مائنس کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ میں اپنی ذاتی رائے میں اس حکمت عملی کو بھی کوئی بہت مستحب نہیں مانتا لیکن میرا سوال وہی ہے جو چند روز قبل چھوڑ کر گیا تھا۔ عمران خان فوج کی غلطی بلکہ حرام زدگی ہے۔ فوج کو اپنی غلطی undo کرنی چاہیے یا نہیں؟ اگر کرنی چاہیے تو کیسے کرے؟ اور اگر نہیں کرنی چاہیے تو اس پر آگے چل کر بات کرتے ہیں کہ اس کا مطلب کیا ہوگا۔

کامران طفیل صاحب کی اس بات سے بھی کافی حد تک اختلاف ہے کہ میاں کے نعرے بجانے والے جتھے بنا کر سوچ پر حملہ کرتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے، گو یوتھیوں کے انڈرگراؤنڈ ہونے کے بعد ممکن ہے تاثر ایسا جا رہا ہو۔ سروائیول آف دی فٹیسٹ میں پہلے کمزور تلف کرنے کے بعد اگلا راؤنڈ نسبتاً کم فٹیسٹ پر چلتا ہے۔ لیگی بیچارے آپ کے خیالات پر اختلافی تجزیہ خاموشی سے اپنی وال پر کر رہے ہیں۔ یوتھیوں کا آپ کو یاد ہی ہوگا کہ پاپا کا گھوڑا اور ماما کا سانپ والی آئی ڈیز سیدھا سیدھا والدہ و ہمشیرہ سے آغاز کرتے تھے۔ لیگیوں کے پاس کامران صاحب کے فاضل دوست مارکہ کوئی ماؤتھ پیس بھی نہیں جو نواز شریف کو بھگوان جے کانت زرداری کے درجے پر پہنچانے میں جتا رہے۔

جہاں تک تجزیے کی بات ہے میں سمجھتا ہوں کامران طفیل صاحب سیاسی معاملات پر تجزیہ کرتے ہوئے ذیل مفروضوں پر تکیہ فرما رہے ہیں۔۔

1۔ ہمارے فاضل دوست کے نزدیک بھگوان جے کانت زرداری بھگوان کا اوتار ہیں۔

2۔ جے کانت زرداری کے مقلدین کے نزدیک مرد حر کے آتے ہی تمام معاملات درست ہوجائیں گے۔

3۔ عمران کے شیرو ایسی ہی امید عمران سے رکھتے ہیں۔

3۔ میاں کے نعرے مارنے والوں کے نزدیک میاں صاحب اقتدار میں آتے ہی دودھ اور شہد کی نہریں بہا دیں گے۔

اگر میں کامران صاحب کی باتوں سے یہ مفروضے درست سمجھا ہوں تو سب سے پہلا اختلاف تو یہیں ہے۔ کم سے کم اہلِ پٹوار نواز شریف کو ریاستی معاملات کا کامل حل یا مسیحا نہیں سمجھتے۔ چونکہ کامران طفیل صاحب کو اختلافی نوٹ عموما ناصر بٹ صاحب سے ملتے ہیں لہٰذا اس ضمن میں ناصر بٹ صاحب کی دو گھنٹے پرانی تحریر ہی کی جانب توجہ مبذول کروانا چاہوں گا جس میں نواز شریف کی غلطیوں اور ان پر تنقید پر مفصل بات ہوئی ہے۔ آپ ایسی ہی کوئی ایک پوسٹ فاضل دوست سے نکلوا کر دکھا دیجیے، پھر آپ یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ اہل پٹوار نواز شریف کو سلاجیت بنا کر پیش کرتے ہیں۔ میاں صاحب کوئی چھڑی گھما کر حالات ٹھیک بھی نہیں کریں گے، بس باقیوں کی نسبت خراب کم کریں گے۔

ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ خان صاحب کو منہا کرکے انتخابات کی شفافیت یا کریڈبلٹی پر سوال اٹھیں گے۔ میں اس بات سے ہرگز اختلاف نہیں کرتا تاہم مجھے پورا یقین ہے کامران صاحب ایک اور بات سے اتفاق کریں گے۔ پاکستان شریف میں آج تک کون سے انتخابات کی کریڈبلٹی پر سوال نہیں اٹھے؟ کیا آپ کو لگتا ہے کہ تحریک انصاف کے ہوتے ہوئے انتخابات کا نتیجہ جو بھی آتا، اس کی شفافیت متفق علیہ ہوتی؟ میرا خیال ہے نہیں۔

اس ضمن میں ایک اور سوال جو میں پہلے بھی سامنے رکھ چکا ہوں یہ ہے کہ 2008 سے 2018 تک پانچویں نسل کے مجاہدین کی جانب سے تحریک انصاف کے علاوہ باقی تمام سیاسی جماعتوں کے خلاف جو گوئبلزم ہوتی رہی جس کے نتیجے میں یہ زومبی یوتھیے وجود میں آئے، کیا وہ کسی بھی الیکشن کی شفافیت پر سوال نہیں؟ آج ہمیں فوج کی جانب سے ایکٹو حرامی پن پر جو تکلیف ہے، وہ پچھلے دس بارہ سال سے اسی فوج کی جانب سے passive حرامی پن پر کیوں نہیں ہوئی؟ آپ دو جماعتوں کے خلاف دس سال سے پروپیگنڈہ دیکھ رہے ہیں، اس کے بعد کوئی بھی انتخابات ایسے ہی ہوں گے جیسے خان صاحب کو سو میٹر کی ریس میں چالیس میٹر آگے سے ریس شروع کروا کر ہوتی۔

آخر اس پروپیگنڈے کے undo کا طریقہ کار کیا ہو؟ اور نہ ہو تو کیوں نہ ہو؟

ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ اس وقت جب خان صاحب کو undo کیا جا رہا ہے تو باقی سیاسی جماعتوں کا رویہ گھٹیا ہے۔ میں یہ بات مان لیتا اگر پچھلی تمام تاریخ کے برعکس یہی جماعتیں خان صاحب کے پیچھے نہ پڑی ہوتیں کہ آؤ مل بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔ بات اتنی سادہ نہیں کہ خان صاحب چونکہ فرعون تھے لہٰذا ان کے ساتھ جو ہو رہا ہے ہونے دیا جائے۔ بات دراصل یہ ہے کہ ان کے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ نہ ہونے دیے جانے کے لیے خان صاحب سے گزارشات ہوتی رہیں کہ خان صاحب مذاکرات کی میز پر آجاؤ۔ اچھا دیگر جماعتوں کو چھوڑیے، کیا عارف علوی نے آخری وقت تک یہ کوشش نہیں کی تھی؟

سیاسی جماعتیں آخر کیونکر کمپنی بہادر کو کہیں کہ سائیڈ پر ہوجاؤ جبکہ کمپنی بہادر کے اپنے بنائے زومبی خود کمپنی بہادر کے لیے مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔ جن سیاسی جماعتوں سے ہم اور آپ اس اصرار کی بات کر رہے ہیں، ان کے خلاف دس سالہ محنت ہوئی ہے پروپیگنڈے کی۔ اس کا ازالہ کیسے ہوگا؟ اور اگر اس کا ازالہ نہیں ہوگا تو خان صاحب کو کھلا سانڈ بنا کر ہونے والے انتخابات منصفانہ کیسے ہو سکتے ہیں؟

وما علینا الا النکاح

Check Also

96

By Azhar Hussain Bhatti