Siasi Polarization Ki Bunyadi Wajah
سیاسی پولرائزیشن کی بنیادی وجہ
میں پوری دیانتداری سے اس بات پر یقین کرتا ہوں کہ عمران خان کی ضد اور انا نے پاکستان کو پولرائزیشن کا شکار کیا ہے۔
ممکن ہے چند احباب اور اکابرین اسے "بکواس" سمجھ اس بنیاد پر بھی غداری کا ٹیگ لگا دیں۔ یقین کیجیے اس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ یقیناً ایسے احباب کو یا تو پولرائزیشن کا مطلب ہی معلوم نہیں ہوگا یا پھر موجودہ سیاسی منظرنامے کی حدت کے باعث وہ بوجہ یہ تسلیم کرنے سے انکاری ہوں گے۔
یہ ایک عام سی بات ہے۔ برصغیر کی گھٹی میں بابا اوپر رکھنے کی روایت عام ہے۔ اس وقت جو احباب خان صاحب کی تقلید سے بڑھ کر وکالت کر رہے ہیں ان کے پاس حق بات کر کے اپنی آڈئینس کھونے کا حوصلہ ہو ایسا ضروری نہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ متعدد بار رابطے کے باوجود باچیز ایک سیاسی جماعت کی سوشل میڈیا ٹیم سے منسلک ہونے سے باز رہا۔
بعد تمہید موضوع پر آتے ہیں۔ پولرائزیشن کیا ہے؟
پولرائزیشن سے مراد سیاسی اختلاف نہیں۔ پولرائزیشن سے مراد سیاسی مخالفین پر دشنام طرازی نہیں۔ پولرائزیشن سے مراد معاشی تباہی سے اختلاف نہیں۔ پولرائزیشن سے مراد پانامہ سکینڈل میں نام آنا یا نہ آنا نہیں۔ پولرائزیشن سے مراد بیرون ملک جائدادوں کے الزامات نہیں۔
اگر کوئی ایسا سمجھتا ہے تو اسے مسیں بھگوتا جوان بننے کی بجائے اب بڑا ہوجانا چاہئے۔
پولرائزیشن سے مراد سماج میں آراء کی ایک ایسی تقسیم ہے جو وقت کے ساتھ گہری سے گہری ہوتی چلی جائیں۔ سیاسی پولرائزیشن سے مراد ایک ایسا معاشرہ ہے جہاں کسی بھی معاملے پر رائے سیاہ و سفید کو سامنے رکھنے کی بجائے فرد کے سیاسی تشخص کی بنیاد پر قائم ہو۔
مثلاً خان صاحب کے کسی کارکن سے پوچھ لیجئے اسے عمران خان کے سوا سبھی چور ڈاکو لٹیرے نظر آئیں گے۔
حضرات و خواتین، ریاست میں جمہوری نظام رائج ہے۔ جمہوری نظام کے تحت کسی فرد پر فرض نہیں کہ وہ مخصوص سیاسی جماعت کا علم بردار بنے۔ ایک فرد اپنی مرضی سے کسی سیاسی جماعت کو ووٹ دیتا ہے تو یہ بات قابل سزا نہیں۔ یہ ایک بنیادی حقیقت ہے۔
مسئلہ وہاں شروع ہوتا ہے جب ایسا کرنا کسی اور سیاسی جماعت کے نزدیک فرد جرم کی حیثیت حاصل کر لے۔ مثلاً میرے بہت اچھے دوست تحریک انصاف سے تعلق رکھتے ہیں۔ عمران خان کو ووٹ دینا ان کا حق ہے۔ میں اس سے اختلاف کر سکتا ہوں لیکن ان سے یہ حق نہیں چھین سکتا۔ نہ ہی عمران خان کو ووٹ دینا میری نظر میں انہیں مجرم ٹھہرانے کا باعث بنتا ہے۔ لیکن یہی سوال ان کی جانب سے پوچھا جائے تو ان کے نزدیک میں ایک چور کے لیے سیاسی جھکاؤ رکھتا ہوں۔ اب چونکہ وہ پوری سیاسی جماعت ہی ان کے نزدیک چور ہے لہذا میں جرم کا مرتکب ہو رہا ہوں۔ اب میں لاکھ دلائل دے دوں، ہزار صفائیاں دے دوں میرا سیاسی تشخص ہی میرا جرم ہے۔ پولرائزیشن اسی کو کہتے ہیں۔ اور اس کی وجہ صرف اور صرف عمران خان صاحب ہیں۔
خان صاحب کے نزدیک مسلم لیگ بھی چوروں کی جماعت ہے، پیپلز پارٹی بھی، جے یو آئی بھی اور اے این پی بھی۔ اور تو اور اب تو ان کے نزدیک فوج بھی غدار ہے اور سپریم کورٹ بھی۔ خان صاحب کے نزدیک متحدہ قومی موومنٹ جو چند ہفتے پہلے تک ان کی اپنی سیاسی حلیف تھی، اب وہ بھی چور اور ڈاکو ہیں۔ اپنے سیاسی مقاصد کے لیے بیانیے کا یہ ہیر پھیر بطور سیاسی لیڈر خان صاحب تو کر لیتے ہیں لیکن اس کا trickle down effect جو معاشرے پر پڑتا ہے پولرائزیشن اسی کا نام ہے۔
ایک اور مثال لیجیے۔ مثلاً یہ میری رائے ہے کہ عمران خان اس وقت معاشرے میں فسطائیت اور سیاسی پولرائزیشن کی بنیادی وجہ ہے۔ میری اس رائے کی بنیاد پر مجھے یا کسی اور کو راتب خور یا کسی ایجنڈے پر ہوتا سمجھنا بذات خود فسطائیت اور پولرائزیشن کی عملی تفسیر ہے۔ اتفاق سے پولرائزیشن یا فسطائیت کی یہ تعریف میری جانب سے مروجہ نہیں۔ آپ اپنے ذرائع سے ریسرچ کر کے اسی نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں، تاہم کسی فین کلب یا کلٹ کا ڈائی ہارڈ فین ہوکر یہ سمجھنا تھوڑا سا مشکل ہے۔
وہ احباب جو اس طرح کی رائے رکھنے پر کسی کو کسی سلیپر سیل کا حصہ سمجھتے ہیں ان کے دل میں مبینہ کدورت پر افسوس ہے۔ مزیدبرآں کوئی بیانیہ اختیار کرنے سے ختنے ہونے یا نہ ہونے کا کوئی رشتہ ہے تو میں ایسا شک کرنے والوں کو اپنے عضو خاص کی خاص تصویر بھیجنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتا۔ جو احباب پولرائزیشن کی غلط تعریف کو عمران خان کا شعور سمجھتے ہیں ان سے گزارش ہے ہرے ٹماٹروں کی کڑاہی بنائیے۔ جن بدبودار افراد کے نزدیک پولرائزیشن کی غلط تعریف جہاد اکبر ہے ان کے لیے شہباز گل کی جانب سے سوادِ اکبر کی سہولت بھی دستیاب ہے۔
چلتے چلتے یاددہانی کرواتا چلوں، الزام لگانے کے لیے فقط ایک عدد زبان چاہیے ہوتی ہے تاہم الزام لگانے کے ساتھ ساتھ ایک مخصوص فریق کی مدحت کے لیے اچھی زبان کے ساتھ حلق کی گہرائی بھی ضروری ہوا کرتی ہے۔ اب حلق کی گہرائی تو مدحت عمرانی والے جانیں الزام لگانا بہرحال آسان ہے۔ کرنا بس اتنا ہے کہ کرپشن کے نام پر توشہ خانہ، غداری و ملک دشمنی کے نام پر آرٹیکل چھ، لوٹ مار کے نام پر فرح گوگی، معیشت کے نام پر قومی خزانے کی حالیہ صورتحال اور میمو گیٹ کے نام پر خط گیٹ خان صاحب کی سی وی پر اب جلی حروف میں درج ہے۔ کہنے کا مقصد یہ کہ ایسا نہیں کہ عمران خان کے بارے میں کہنے کو کچھ نہیں۔ بہت کچھ ہے لیکن اس کا مطلب یہ بہرحال نہیں کہ ایک اصطلاح کی غلط ترویج کر کے اہلِ بغض کی واہ واہ سمیٹی جائے۔
میں پوری دیانتداری سے اس بات پر یقین کرتا ہوں کہ عمران خان کی ضد اور انا نے پاکستان کو پولرائزیشن کا شکار کیا ہے۔