Rishtedar 64, 65 (2)
رشتہ دار 64، 65 (2)
یاد نہیں کہ اسی دن یا کچھ دن بعد وہ گاڑی اٹھا کر نکل گئے۔ میرا کارنامہ یہ تھا کہ نہ لکھت کی نہ پڑھت۔ بس۔۔ دے دی۔ اس وقت تو یہی لگا تھا کہ گاڑی دی تاہم اب مڑ کر دیکھتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ۔۔ دے دی۔
اس بات کے کوئی دو ماہ بعد ماموں طاہر کی میرے پاس کال آئی۔ منمناتے ہوئے فرمانے لگے کہ دراصل تمہاری ممانی سلطانہ کی سالگرہ ہے، میں انہیں لیپ ٹاپ گفٹ کرنا چاہ رہا ہوں۔ بس پیسے کوئی نہیں۔ اگر تمہارے کریڈٹ کارڈ پر لے کر اقساط میں کروا دوں تو کوئی مسئلہ تو نہیں۔
چونکہ میں اچھا خاصہ چ تھا لہٰذا بلا چون و چراں ہاں کر دی۔ خود ہی ان کے لیے لیپ ٹاپ خریدا اور ابو ظہبی سے عجمان دے کر بھی آیا۔ مطلب تھوک بھی اور۔۔ خیر۔۔
صرف یہیں تک نہیں۔
کچھ عرصے بعد دونوں نے مجھ سے فرمائش کی کہ ماموں طاہر کی نوکری لگوا دی جائے۔ اتفاق سے اس وقت میرا ایک کزن پاکستان سے امارات آیا ہوا تھا۔ مجھ سے چھوٹا تھا، اور میرے ساتھ کوئی اخیر اوپن تھا۔ گپ شپ بہت تھی، پھر پشاور سے تھے دونوں سو دوستی یاری میں جو ممکن ہو رسک لے لیا کرتے۔ کزن نے ٹیلی کام سے متعلقہ الیکٹریکل پراجیکٹس کی کمپنی کھولی تھی۔ وہیں شارجہ میں کوئی پٹھان پارٹنر تھا جسے وہ پاکستان سے جانتا تھا۔
ماموں طاہر کی سفارش آئی تو میں نے کزن سے بات کی۔ اسے کہا یار انہیں کہیں بھی لگا دے۔ اے سی ٹیکنیشن ہیں سو الیکٹریکل کا کام کر لیا کریں گے۔ کزن نے کہا اوکے۔ میں نے آپس میں دونوں کے نمبرز کا تبادلہ کروایا اور واپس ابو ظہبی آگیا۔
کزن کا دو ہفتے بعد فون آیا کہ تو نے کیا چیز دے دی ہے۔ پوچھا کیا ہوا؟ بتایا ماموں طاہر کو ایک لیبر جاب کے لیے پارٹنر سے انٹرویو پر بلایا۔ ماموں نے دو منٹ ہمارا آفس دیکھا، پراجیکٹس سنے اور آگے سے فرمانے لگے۔۔ میں تو جاب کے لیے آیا ہی نہیں۔ مجھے تو پارٹنرشپ میں کام کرنی ہے۔ یہ سن کر کزن اور پارٹنر شکل دیکھنے لگے۔ پوچھا ماموں پارٹنرشپ میں آپ کی انوسٹمنٹ کتنی ہوگی؟ جواب ملا صفر۔ تم مجھے بس ایک گاڑی دو اور چار لڑکے، ماہانہ اتنا اتنا پرافٹ لانا میری ذمہ داری۔
اب یہاں میری بھی "ہیں؟" نکل گئی۔ پوچھا پھر کیا کیا تو نے؟ کہنے لگا تیرا ریفرنس اور بندے کا کانفیڈینس دیکھ کر ہم نے اسے ایک ہائی ایس اور چار بندے پکڑا دیے۔ کہ چل لا کام۔
اس کے بعد ان کی آپس میں کیا بات چیت ہوئی میں نہیں جانتا۔ بس اتنا معلوم ہے کہ قریب ایک سال بعد مجھے کزن کی کال آئی۔ پوچھا کیا ہوا تو کہتا ہے مجھے ماموں طاہر کے گھر والوں کا پتہ چاہئے پاکستان میں۔ اب میرے کان کھڑے ہوئے۔ پوچھا کیا ہوا۔ آگے سے لمبی چوڑی کہانی سنائی جس کا لب لباب یہ تھا کہ شروع میں دو چار پروجیکٹس سے کچھ پیسے دیے۔ پھر کہتا ہے یہ گاڑی بدلو۔ مجھے Pajero چاہئے۔ ہم نے پوچھا کیوں تو کہنے لگا ہائی ایس میں سامان بھی نہیں آتا اور میری فیملی بھی خوش نہیں ہوتی۔
ہم نے تھوڑی پس و پیش کے بعد دے دی جو ہمارے اپنے استعمال میں کھڑی تھی۔ کوئی آٹھ ماہ ہوئے۔ اس دوران اس نے ہمارے درجن بھر چیک پھنسائے ہوئے ہیں جہاں کام آدھا پونا نامکمل کرکے آیا ہے۔ اب وہ چیک واپس نہیں کر رہے۔ الٹا دھمکیاں دے رہے ہیں کہ تمہارے بندے نے کام نہیں کیا یا کیا تو خراب کیا اب سیٹ کرکے دو۔ گاڑی دی تھی، اس نے ہمیں گاڑی واپس کی۔ جس حالت میں واپس کی وہ ایک الگ کہانی ہے۔ قصہ مختصر کوئی چالیس ایک ہزار درہم کا چونا لگا کر خود غائب ہے۔
ہفتے بعد میں ان دونوں فریقین کے درمیان تصفیہ کرنے کے چکر میں پورا دن لگا کر آیا مگر حل نہ نکال پایا۔ غلطی جس کی بھی تھی، کزن نے مجھ سے گلہ کیا کہ یہ کس قسم کا انسان دیا تو نے۔ گلہ جائز تھا یا ناجائز اس پر میری رائے محفوظ رہے گی بہرحال کسی کا بھلا۔۔ میرے لیے اچھا خاصہ عذاب بنا۔ لیکن۔۔ عذاب تو ابھی آنا تھا۔۔
خیر۔۔ ایک دن مجھے ممانی سلطانہ کی صبح سویرے کال آئی۔ پوچھا کیا ہوا۔۔ فرمایا پولیس نے گاڑی روک لی ہے اور جانے نہیں دے رہے۔ کہہ رہے ہیں اس کی قسطیں ادا نہیں ہوئیں بلیک لسٹ ہے۔ میری ایک بڑی سی "ہیں" نکلی کیونکہ میرے ذہن میں یہ تھا کہ قسطیں تو باقاعدہ ادا ہو رہی ہیں۔ میں اپنے دو تین سو درہم بھیج دیتا ہوں باقی کے یہ لوگ۔ تو یہ کیسے ہوا؟ اس وقت گاڑی ماموں طاہر چلا رہے تھے۔ الحمد للہ ان کا ویزا اور ایمریٹس آئی ڈی دونوں ایکسپائر تھے۔ شرطے نے مہربانی کی کہ ممانی سلطانہ کی ایمیریٹس آئی ڈی رکھ لی اور گاڑی یہ کہہ کر جانے دی کہ اب باہر نہ نکالنا جب تک عدالت سے اسے کلئیر نہ کروا لیا جائے۔ میری اچھی خاصی ہاتھ میں۔ بینک رابطہ کیا۔ معلوم ہوا کہ پچھلے ایک سال میں کوئی تین اقساط کی کٹوتی پر مطلوبہ بیلنس موجود نہ ہوا جس کے باعث بینک نے عدالت میں الٹا مجھ پر کیس کر دیا ہے۔
اوکے۔ وڑ گئے بھئی۔
مقدمہ راس الخیمہ کورٹ میں رجسٹر ہوا۔ ایک سال کے قریب ہوچکا تھا۔ مزید دو سال باقی تھے۔ بینک نے کہا بیٹا تمہارے چیک تو اب قبول نہیں۔ کسی دوست یار سے چوبیس عدد پوسٹ ڈیٹڈ چیک لا کر جمع کراؤ۔ لیگل فیس شاید پانچ ہزار درہم وہ بھی تم پر آئے گی جو گاڑی کلئیر کرتے ہوئے تمہیں دینی ہوگی۔
اور یہ سب کچھ بھلا کس وقت ہوا؟ یہ بھی سن لیں۔
میں فرینچ کمپنی کے ساتھ آؤٹ سورس بنیادوں پر کام کر رہا تھا۔ ان کے مقامی پارٹنر کے ویزے پر تھا۔ اب مجھے فرینچ کمپنی اپنے ویزے پر منتقل کر رہی تھی۔ بیگم بچے پاکستان میں تھے۔ ان کا ویزا کینسل کروا کر بھیجا تھا کہ نئے ویزے پر بلواؤں گا۔ ان کے نئے ویزے کے لیے پہلے مجھے اپنا موجودہ ایکسپائر ویزا کینسل کروانا تھا۔ اس کے بعد نئی کمپنی کا ویزا نکلوانا تھا۔ پھر فیملی کا ویزا سپانسر کرنا تھا۔
مسئلہ کہاں آیا؟ میرا ایکسپائر ویزا کینسل نہیں ہو سکتا۔ کیوں بھلا؟ کیونکہ ممانی سلطانہ اور ماموں طاہر نے گاڑی کی ریجسٹریشن (ملکیہ) کی تجدید نہیں کروائی تھی۔
رشتہ دار 64-65۔۔ جی۔۔ رشتہ دار 64-65
اب گاڑی کی ریجسٹریشن کے لیے گیا تو پتہ چلا نہیں ہو سکتی کیونکہ میرا ویزا ایکسپائر ہے۔ ویزا اس لیے کینسل اور ری نیو نہیں ہو سکتا کیونکہ گاڑی کی ریجسٹریشن ایکسپائر ہے۔
Fuccking Vicious Circle!
میں اس دن راس الخیمہ کے ہوٹل میں سر پکڑ کر بیٹھا ہوا تھا۔ کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیسے مسئلہ حل کروں۔ نہ منسٹری آف انٹیرئیر والے تعاون کر رہے تھے نہ RTA والے کچھ سننے کو تیار تھے۔ گاڑی کا روڈ ٹیسٹ جو ضروری ہوتا ہے وہ میں کروا چکا تھا پہلے ہی ماموں و ممانی کو کہہ کہہ کر۔ ریجسٹریشن انہوں نے اس لیے نہیں کروائی وقت پر کیونکہ۔۔
کیونکہ؟
جی ہمارے پاس پیسے نہیں۔
خیر۔۔ بینک کو چیک جمع کروا کر کلئیرینس لیٹر اور کلئیرنس لیٹر کورٹ میں جمع کروا کر میں ہوٹل آیا۔ کافی دیر تک سوچتا رہا مگر پھر تنگ آکر سوگیا۔ کوئی حل ویسے بھی سمجھ نہیں آرہا تھا۔
(جاری ہے)