Jamhuriat Ka Inteqaam
جمہوریت کا انتقام
روم کی تاریخ تِین اہم حصوں پہ مشتمل ہے۔ میں روم ایک طویل بادْشاہَت کے چلتا رہا۔ 509 قبل مسیح میں روم کا شہزادہ ایک خاتون کے ساتھ زیادتی کرتا ہے۔ خاتون اِس کی تشہیر کرنے کے بعد خودکشی کر لیتی ہیں اور یوں انقلاب روم کا آغاز ہوتا ہے۔ بادشاہ سلامت کو عوام، فوج اور اس وقت کے درباری مل کے جلا وطن کر ہیں اور اِس کے ساتھ ہی روم میں جمہوریت کا نفاذ ہو چلتا ہے۔
جمہوریت روم دنیا بھر کے اولین جمہوری نظاموں میں سے ایک کی حیثیت سے تاریخ کے صفحات میں مذکور ہے۔ یہ ایک کامل جمہوریت تو نہیں تھی، لیکن بادْشاہَت سے سینیٹ تک کے سفر میں بلا شبہ ایک اہم سنگ میل ضرور تھی۔ 510 قبل مسیح سے شروع والا یہ نظام، بنیادی ڈھانچے سے شروع ہوتا ایک ایسا مقام پہ پہنچ گیا جہاں سربراہ مملکت کو کسی دوسری ریاست کے ساتھ کوئی بھی معاہٍدہ کرنے یا نا کرنے کے لیے سینٹ سے اِجازَت لینی پڑتی تھی۔ عوام کی ایڈمنسٹریشن اور اس پہ لگنے والا پیسہ سینٹ کی اِجازَت سے تقسیم کیا جاتا تھا۔ کوئی بھی قانون سینٹ کی اجازت کے بغیر منصور نہ ہو سکتا تھا۔ سینٹ کے ممبران کے احتساب کا عمل بھی مکمل تھا اور اس وقت کی بیوروکریسی اِس اِحتِساب کے نظام سے کافی خوف زدہ رہتی تھی۔ انتخابات کا عمل آج کی طرح آزادانہ تو نہ تھا البتہ ایک حد تک لوگوں کو اپنے ووٹ کے ذریعے نئے نمائندگان منتخب کرنے کی آزادی ضرور ہوتی تھی۔ ووٹ کا اختیار ہر آزاد شہری کے پس ہوا کرتا تھا تاہم غلام اِس حق سے محروم تھے۔
قریب 450 سال کی اِرتِقا کے بعد یہ نظام اِس حد تک طاقتور ہو چکا تھا کے فوج جیسا ظاقتور ادارہ بھی مکمل طور پر سینٹ کے زیر اثر تھا۔ شاید یہ نظام مزید طاقتور ہو جاتا پر افسوس کہ اداروں کا تصادم، عیسی کی پیدائش سے پہلے بھی ہوا کرتا تھا۔ قریب 50 قبل مسیح میں سینٹ کی جانب سے جولیس سیزر نامی عظیم الشان جرنیل کو اس کی بیش بہا اور شاندار فوجی کیریئر کے باوجود معزول کرنے کا حکم دے دیا گیا۔ سیزر کے سامنے دو راستے تھے۔ پہلا خود کو اپنی فوج سمیت سینٹ کے حوالے کر کے تاریخ کے گمنام صفحات میں غائب ہو جانا جب کے دوسرا راستہ، اپنی موجودہ پوزیشن اور فوج کو استعمال کرتے ہوئے سینٹ کے ساتھ تصادم۔ سیزر نے دوسرا راستہ اختیار کرتے ہوئے دریاےَ روبیکو کو پار کیا اور اپنا لشکر سینٹ پر چڑھا ڈالا۔ سینٹ، جس کا سربراہ پومپے تھا، نے عسکری اعداد کی برتری کے باوجود خون خرابے سے گریز بہتر سمجھا اور فرار کا راستہ اختیار کیا۔ سیزر، رومن اقتدار پہ قابص ہوا اور ایک نئی کٹھ پتلی سینٹ کا آغاز کیا جس کا کام اس کی بحیثیت مقتدر کو قانونی شکل دینا تھا۔ جمہوریت پہ قبضہ کرتے ہی سیزر نے سینٹ کی سیٹوں کی تعداد بڑھا ڈالی اور اپنے حامیوں کے لیے اقتدار کی بندر بانٹ کا دروازہ کھول دیا۔ سیزر کی خواہش تھی کے اس کی ذات پارلیمنٹ، عدلیہ، سینٹ اور الیکشن کمیشن سے اُوپر ہو۔ اس کی دیرینہ خواہش تھی کے وہ اقتدار بلا شرکت غیر کا مالک ہو۔ پومپے کو شکست دینے کے بعد وہ اپنی اسی خواہش کو پُورا کرنی کی جانب رواں دواں تھا۔
لیکن جمہوریت کے قاتلوں کو سکون کی موت آجاےَ، یہ تاریخ سے ثابت نہیں۔ 6 سال کے قلیل عرصے میں سیزر ہی کے 2 چیلوں نے مل کر اسی ڈمی پارلیمان میں اس پہ چھریوں اور چاقوؤں کے پے در پے وار کیے اور اسے ہلاک کر ڈالا۔ بروٹس، سیزر کے خاص معتمدین میں سے ایک تھا۔ حالت نزع میں بروٹس کو حملہ آوروں میں شامل دیکھ کر سیزر کی زبان سے فقط اتنا ہی نکل پایا، "بروٹس، تم بھی؟ " بے شک یہ بیچارگی کی انتہا تھی کے ایک جلیل القدر جرنیل، فاتح اور آمر، اپنی ہی بنایِی ہوئی پارلیمان میں، اپنے ہی مصاحبین اور معتمدین کے ہاتھوں اِس بے رحمی سے قتل کیا گیا کے اس کی لاش اٹھانے والا کوئی نہ تھا۔ ووٹ کا اختیار تک نہ رکھنے والے خدام، آخر کار ہمت کر کے سیزر کی لاش اٹھا کر چلتا بنے۔
کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی۔ انتھونی، بروٹس اور دیگر سینیٹر، سیزر کے بعد آنے والے خلا کو پر کرنے کا کوئی منصوبہ پیش نہ کر سکے اور یوں سیزر کی موت کے بعد خانہ جنگی نے روم کو آن گھیرا۔ انتھونی اپنی طرف سے خود کو سیزر کا جانشین سمجھ بیٹھا تاہم وصیت کے مطابق سیزر کے پوتے، آگسٹس کو 18 سال کی عمر میں بادشاہ کا درجہ دے دیا گیا۔ اسی آگسٹس نے آگے جا کر رومن جمہوریت کے اختتام کا باقاعدہ اعلان کیا اور یوں، ایک بہترین عوامی نظام، محض اداروں کے تصادم اور ایک آمر کی مہم جوَیِ کے باعث زمین بوس ہو چلا۔
قارین کرام، جمہوریت ایک ایسا نظام ہے جس کا خاصہ سیلف میڈیکیشن، یعنی خودکار صحت یابی ہے۔ بدترین جمہوریت بھی بہترین آمریت سے بہتر ہے کہ جمہوریت میں رہتے ہوئے اِس نظام کو بدلنا عین ممکن ہے، البتہ آمریت کا بہتر ہونا غیر یقینی۔ زخمی جمہوریت کی سرجری کے لیے غیر جمہوری ٹیکہ جب جب اور جہاں جہاں لگایا گیا، وہاں عموماً آمریت کا کینسر ہی سامنے آیا۔
اب ذرا روم سے اٹھ کے پاکستان آتے ہیں۔ نیتوں کو جاننے والی ذات بلا شبہ اللہ کی ہے اور نیک خیالی ہمارا فرض۔ بحیثیت راقم میں یہ تو نہیں کہتا کے خان صاحب جو کہہ رہے ہیں وہ سب غلط ہے، لیکن صاحب، جو آپ کر رہے ہیں، وہ بھی ٹھیک نہیں۔ یہ ملک ہمارے لیے روم سے بڑھ کر ہے اور آپ، خان صاحب، ہمارے لیے سیزر سے کہیں زیادہ اہم ہیں۔ آپ سے گزارش ہے کے بے شک کچھ بھی کریں لیکن غیر جمہوری قوتوں کے ساتھ مل کے، کسی قسم کا سیزر بننے کی کوشش نہ کریں۔ آپ کو ہر طرف سے انتھونی اور بروٹس نے گھیر رکھا ہے۔ آپ کےمصاحبین میں قریشی صاحب بھی ہیں اور شیخ رشید بھی۔ عین ممکن ہے کے آپ کو خود پرستی کی طرف دھکیلا جا رہا ہو جس سے بچنا ایک نارمل انسان کے لیے بہت پیچیدہ ہے۔ سیزر کی طرح آپ بھی اِس وقت کی عدلیہ، پارلیمان اور الیکشن کمیشن کو پیر تلے روندنے کے درپے ہیں لیکن امید ہے، آپ جمہوریت کے قاتلوں میں اپنا نام نہیں لکھوایِنگے، کیونکہ آپ ایک اعلی شخصیت کے مالک ہیں اور ایسی شخصیات کا اِختِتام بھٹو، ضیا یا سیزر کی طرح ہونا، بلا شبہ ایک نفرت آمیز مگر تلخ حقیقت ہے۔ خان صاحب? جو مرضی کیجیے مگر جمہوریت کے انتقام سے ضرور ڈریے!