Hamare Zamano Mein Sirf Bacon Ki Home Delivery, Khano Ki Nahi
ہمارے زمانے میں صرف بچوں کی ہوم ڈیلیوری، کھانوں کی نہیں

ہمارے زمانے کی امی، دادی، نانی، خالہ، چچی، پھوپھی اسکولوں سے تعلیم یافتہ نہ تھیں۔ جو کچھ تھا بس گھر میں پڑھا لکھا۔ خط لکھ لیا پڑھ لیا۔ دھوبن کو کپڑے دیتیں اور جس طرح لکھثیں بس وہی ہڑھ لیتیں۔ تولیہ کا ت، ط لگتا۔ قمیض کا ق، ک بن جاتا مگر کمال ہے کہ جو ایک کپڑا ادھر سے ادھر ہو اور کسی دوسرے کا کپڑا اپنے گھر ا جائے۔ کپڑے میں ہلکی سی کھونت لگ جائے یا رنگ آڑے تو دھوبن کے رنگ اڑا دیتیں۔ ذھانت کمال کی ہوتی۔
یہ وہ زمانہ تھا جب صرف بچوں کی ہوم ڈیلیوری ہوا کرتی تھی۔ کھانوں کی ہوم ڈلیوری کا کوئی تصور یا تصویر نہیں تھی۔ گھر میں کیا کھانا پکانا ہے اور جو پکانا اس کے فوائد سے صبح سے ہی آگاہ کرنا شروع کر دیئے جاتے اور ہم جان جاتے کہ آج چولھے پر کم اور ہمارے دماغ پر زیادہ کیا چڑھے گا۔
اب ذرا دیکھیں۔ سردی کا زمانہ ہے اور کون سی سبزی کیسے sale کی جا رہی ہے۔
ابھی صبح ہوئی ہے اور امی یا دادی کے ذہن میں آ گیا کہ آج کیا پکنا ہے۔ اب آپس کی اونچی آواز میں گفتگو ایسی کے ہم سب سن لیں۔
امی: اے بوا! زوروں کی سردی میں سب سے اچھی سبزی کیا ہے؟ رات سے منے کی طبیعت ٹھیک نہیں۔ سینہ ٹھنسا ہوا ہے۔
بوا: بھیا ہمارے زمانے میں تو یہ سردی آئی اور ابا لے آئے بند گوبھی اور ہم نے چڑھا دی چولھے پر۔ یہ سب نے پیٹ بھر کر کھائی اور کہاں کا گلا بند اور کیسا سینہ ٹھنسا؟ تمہارا سسر سینہ ٹھونک کر کہا کرتے تھے۔ بند گوبھی گلے کو کھول اور سینے کو کینہ اور بعض تک سے صاف کر دیتی ہے۔
اب ہمارا تو منہ ہی بند ہو جاتا۔۔ منہ سے لاکھ کہتے بھائی ابھی بات ہوئی ہے اور تو دل ہر لے گیا مگر اس کے منہ پر تو جیسے کسی نے علی گڑھ کا تالا لگا دیا ہو۔ زبان کہتی مجھ سے پوچھو کیا گزرے گی۔ گلا کہتا میں کیسے گزاروں گا حلق سے۔
امی: (ہمیں مزید گوبھی بند معلومات دینے کے لیے بوا سے) ہوتی تو بڑے مزے کی ہے۔ ملتا کیا ہے اس سے؟
بوا: یہ کسی بیماری کو پاس نہ پھٹکنے دے۔ جسم میں ایسی جان لاوے کہ بڑی سے بڑی بیماری منہ کی کھائے۔
ہم سوچ میں پڑ جاتے۔ وہ تو صحیح ہے کہ بیماری منہ کی کھائے مگر ہمارا منہ تو اسے کیسے کھائے۔
بوا: ویسے حکیم جی۔۔ اللہ بخشے مر گئے مگر پتے کی بات بتا گئے سردیوں میں جڑ والی سبزیاں ہر موسمی بیماری جڑ سے اکھاڑ دیتی ہیں۔
اماں: تو وہ شلجم، گاجر چقندر جیسا تو کوئی ہے ہی نہیں۔ کچی بھی کھاؤ تو پر تاثیر ہیں۔
اور ہمارے شلجم کا بلغم حلق میں پھنسنا شروع ہو جاتا)
بوا: ہائے میرا بس چلے تو سال بھر چقندر کھاؤں۔ نیا خون بناتا ہے۔
میں سوچتا اور یہ ہمارا سارا خون جلا کر رکھ دیتا ہے۔ لگتا ہے سبزی نہیں کسی کا خون پی نہیں بلکہ کھا رہے ہیں۔ ہاتھ تک خون سے رنگین ہیں۔ زبان اتنی لال جیسے کسی ڈائن نے خون کیا ہو۔
اماں: تو بوا کیا پکا لوں؟ بند گوبھی یا شلجم یا چقندر؟
بوا: دوپہر میں چند گوبھی اور رات کے لیے چقندر اور اس میں ایک پاؤ گائے کا گوشت ڈال دینا۔
ہم گوشت کا سنتے اور گوش بر آواز ہو جاتے کہ چلو کچھ آنسو تو دھلے۔ مانا کہ ایک بوٹی ہی حصے میں آئے گی مگر ذائقہ تو پورے سالن میں ہوگا۔
اب گزر گئے ہیں وہ دن۔ اب جتنا بھی گوشت (وہ بھی مرغی کا) کھالیں مگر وہ لذت کہاں۔ واقعی پہلے بہت کچھ کم تھا مگر زندگی کے ایک ایک لمحے کا لطف بہت زیادہ تھا۔۔ جانے کہاں گئے وہ دن؟