Sunday, 30 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hamza Bhatti
  4. Sar Qalam Karne Ko Talwar Liye Phirte Hain

Sar Qalam Karne Ko Talwar Liye Phirte Hain

سر قلم کرنے کو تلوار لئے پھرتے ہیں

لاکھوں کروڑوں درود حضور نبی کریم رؤف الرحیم خاتم النبیین رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس پر اور ان کی آل پر۔ حضور نبی کریم ﷺ کی ناموس پر ہماری جان، مال، اولاد سب کچھ قربان اس پر تو کوئی دوسری رائے ہی نہیں۔ لیکن کسی بھی مسلمان کی بات کی غلط تشریح کرکے اس پر ناموس رسالت یا مذہب کی توہین کا الزام لگا کر چڑھ دوڑنا ہمارے معاشرے میں اس کا رجحان دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ حالانکہ ہمیں غیر مسلموں کو دین حق کی طرف راغب کرنا چاہیے مگر ہمارا معاشرہ دن بدن کسی نہ کسی مسلمان کو کافر قرار دینے کے لیے کوشاں ہے۔ جو کہ معذرت کے ساتھ شدت پسندی کی ایک شکل ہے۔ جس کی اسلام جیسے محبت پھیلانے والے دین میں کوئی گنجائش نہیں۔

معروف یوٹیوبر اور فیملی ویلاگر رجب بٹ جو کہ یوٹیوب پر چھ ملین سے بھی زائد فالور رکھتا ہے اس نے 295 کے نام سے اپنا ایک پرفیوم لانچ کیا اور اپنے ایک ویلاگ میں اس نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس کا یہ 295 نام رکھنے کا مقصد سدھو موسے والا (جو کہ کافی عرصہ پہلے قتل کر دیا گیا تھا) جو کہ انڈین پنجابی سنگر تھا جسے یہ استاد مانتا ہے کے ایک مشہور زمانہ گانے جس کا ٹائٹل 295 تھا کہ نام سے رکھا ہے۔ لیکن ساتھ ہی اپنے ایک ویلاگ میں اس نے 295 اے اور 295 سی جو کہ بالترتیب توہین مذہب اور توہین رسالت کے قانون کی شقیں ہیں کا ذکر کیا۔ جو کہ کچھ عرصہ پہلے اس پر لگی تھی جس میں رجب بٹ پر الزام تھا کہ اس نے نماز کی بے حرمتی کی ہے اور کراچی میں اس پر 295 اے کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ جس کے بعد اس نے معافی مانگ لی تھی اور وہ مقدمہ ختم ہوگیا تھا۔

اس کا ذکر کرنا رجب بٹ کو مہنگا پڑ گیا اور جب یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو اس کے بعد تحریک لبیک پاکستان جو کہ ایک مذہبی سیاسی جماعت ہے اس کے رہنماؤں اور کارکنان نے حکومت پاکستان سے رجب بٹ پر مقدمہ درج کرنے اور اسے گرفتار کرنے کا پرزور مطالبہ شروع کر دیا۔ رجب بٹ نے سارے معاملے کے بعد قرآن پر ہاتھ رکھ کر اپنی ایک ویڈیو جاری کی جس میں اس نے وضاحت دی کہ اس کا ہرگز یہ مقصد نہیں تھا کہ قانون رسالت اور قانون مذہب کی ان شکوں 295 اے اور 295 سی کی بے حرمتی جائے وہ اس کا انکاری نہیں ہے بلکہ توہین رسالت کرنے والے کو قتل کرنے کا حامی ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ وہ اپنے اس پرفیوم 295 کو بھی ختم کرنے کا اعلان کرتا ہے۔

جب اس وضاحتی ویڈیو کے بعد بھی معاملہ ٹھنڈا نہ ہوا تو اس معاملے کی شدت کو دیکھتے ہوئے رجب بٹ لاہور سے اسلام اباد اور پھر اسلام اباد سے سعودی عرب روانہ ہوگیا۔ جہاں پر کچھ گھنٹے پہلے پھر سے اس کا ایک وضاحتی بیان آیا ہے جس میں وہ خانہ کعبہ کے بالکل سامنے کھڑے ہو کر اس بات کی حامی بھر رہا ہے کہ اس کا مقصد ہرگز کسی بھی قانونی شک جس کا تعلق ناموس رسالت اور مذہب سے تھا اس کی بے حرمتی کرنا یا اس کے متعلق کوئی غلط بات کرنا اس کا مقصد نہیں تھا۔ اس بات پر وہ پوری قوم سے معافی بھی مانگ رہا ہے اور حکومت پاکستان سے مطالبہ بھی کر رہا ہے کہ اسے انصاف دیا جائے۔

بنیادی طور پر دیکھا جائے تو انسان خطا کا پتلا ہے۔ لیکن موصوف یوٹیوبر آئے دن کسی نہ کسی غلطی کا ارتکاب کرتے نظر آتے ہیں ہیں جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا کچھ عرصہ قبل اس کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں یہ نماز کو مزاح کے انداز میں پیش کر رہا ہے جس میں اس کی والدہ بھی اس کے ساتھ موجود ہے جس پر مذہبی حلقوں کی طرف سے تشویش کا اظہار کیا گیا اور اس پر مقدمہ بھی بنا مگر اس نے معافی مانگ لی اور وہ بات ختم ہوگئی پھر کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ اس کے ویلاگ میں موجود اس کے ایک دوست عبدالرحمن ڈوگر نے مسیحی برادری کے متعلق ایک جملہ کہا جس کے بعد مسیحی برادری کی طرف سے ری ایکشن آنے پر انہیں ان سے معافی مانگنی پڑی ابھی وہ معاملہ سلجھا ہی تھا کہ موصوف نے یہ کام کر دیا۔

ایک طرف دیکھا جائے تو آپ جب سوشل میڈیا پر اتنی بڑی فالونگ رکھتے ہوں اور روزانہ 40 منٹ کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرتے ہوں تو آپ کو اپنے ایک ایک لفظ پر غور و فکر کرنا چاہیے اور اس کو سوچ سمجھ کر ادا کرنا چاہیے کیونکہ یہ ایک اسلامی معاشرہ ہے اور خاص طور پر مذہب تو ایک ایسا حساس موضوع ہے جس متعلق ہمارے معاشرے میں بہت زیادہ جذبات پائے جاتے ہیں۔ لہذا اس متعلق تو کوئی بات کرتے ہوئے سو دفعہ سوچنا چاہیے۔

اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ایک آدمی جو اپنی ہر ویڈیو کا آغاز ہی حضور نبی کریم رؤف الرحیم ﷺ پر درود اور ان کی آل پر درود سے شروع کرتا ہے وہ کیسے توہین مذہب یا توہین رسالت کا مرتکب ہو سکتا ہے۔ حالانکہ میں ان فیملی ولاگرز کے بارے میں کوئی اچھی رائے نہیں رکھتا اور نہ ہی میں اس کا دفاع کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ لیکن جب وہ خانہ کعبہ میں کھڑا ہو کر اس بات کی نفی کر رہا ہے تو ہم کیوں زبردستی اسے توہین مذہب یا توہین رسالت کا مجرم ٹھہرا رہے ہیں؟ بلکہ اس بات کے متعلق تو ہمیں ہمارا دین بھی بتاتا ہے کہ کسی مسلمان بھائی پر غلط گمان نہیں کرنا چاہیے۔ دلوں کے راز تو اللہ ہی جانتا ہے بلکہ اس متعلق تو ایک بڑی واضح حدیث بھی ہمیں ملتی ہے۔

بخاری و مسلم میں ایک حدیث ہے کہ اسامہ ابن زید جو نبی کریم ﷺ کے پوتوں کے مانند تھے کیونکہ صحیح بخاری میں آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ اپنے راندوں پر ایک طرف حسن ابن علی کو اور دوسری طرف اپنے منہ بولے بیٹے زید ابن حارثہ کے بیٹے اسامہ ابن زید کو بٹھاتے تھے یعنی اسامہ ابن زید نبی کریم ﷺ کو اتنے عزیز تھے۔ میدان جنگ میں ان اسامہ بن زیدؓ کی تلوار کے نیچے ایک کافر نے کلمہ پڑھ دیا اس کے باوجود انہوں نے اسے قتل کر دیا۔ لیکن ان کے دل میں یہ بات رہی لہذا کچھ عرصے بعد انہوں نے نبی کریم ﷺ سے ذکر کیا تو آپ ﷺ خاتم النبیین رحمت اللعالمین سخت ناراض ہوئے اور فرمایا اسامہ جب اس نے کلمہ پڑھ لیا تھا تو تم نے کیوں اسے قتل کیا حالانکہ یہ سارا واقعہ میدان جنگ میں ہو رہا تھا اور عین ممکن ہے کہ اس نے ڈر کی وجہ سے کلمہ پڑھا ہو لیکن رحمت اللعالمین ﷺ سخت ناراض ہوئے۔

اسامہ بن زیدؓ نے فرمایا کہ حضور ﷺ اس نے ڈر کی وجہ سے کلمہ پڑھا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسامہ کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھ لیا تھا کہ وہ ڈر کر کلمہ پڑھ رہا ہے۔ جس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسامہ تو کیا کرے گا اسامہ تو کیا کرے گا اسامہ تو کیا کرے گا آپ ﷺ نے یہ جملہ بار بار دہرایا جس پر اسامہ بن زید کہتے ہیں کہ میرا دل کیا کہ کاش آج سے پہلے میں کافر ہوتا اور آج مسلمان ہوا ہوتا تو یہ میرا گناہ معاف ہو جاتا آپ ﷺ نے فرمایا اسامہ تو کیا کرے گا جب قیامت کے دن وہ کلمہ پڑھتا ہوا اللہ کے حضور تم پر مقدمہ دائر کرے گا۔

لہذا جب اللہ کے نبی رحمت اللعالمین ﷺ نے ایک کافر کی نیت پر شک کرنے سے باز رہنے کی ترغیب دی تو ایک مسلمان کی نیت پر کس طرح شک کیا جا سکتا ہے جب کہ وہ اعلانیہ کہہ رہا ہے کہ میں ایسا کرنے کا کبھی مرتکب نہیں ہو سکتا۔

قران مجید کی سورہ مائدہ میں بھی ہمیں اسی قسم کے احکامات دیے گئے ہیں "ہاں جن لوگوں نے اس سے پیشتر کہ تمہارے قابو میں آ جائیں توبہ کر لی تو (ان پر ذیادتی نہ کرو اور) جان رکھو کہ اللہ بخشنے والا مہربان ہے"۔ (المائدہ 33-34)

لہذا رجب بٹ سمیت تمام سوشل میڈیا انفلونسرز کو چاہیے کہ ساری توجہ بولنے کی بجائے کچھ توجہ سوچنے پر بھی دیں اور خاص کر مذہبی گفتگو کرتے وقت تو بات کرنے سے پہلے ہزار دفعہ سوچنا چاہیے اور ہمیں بھی معاشرے میں موجود اس شدت پسندی کی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔ بھارت میں جب نریندر مودی گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کرتا ہے تو ہم اسے شدت پسند کہتے ہیں جبکہ اپنے ہاں ہم اپنے مسلمان بھائیوں کو قتل کرنے میں ایک منٹ نہیں لگاتے۔ یہی تو وجہ ہے کہ مغرب ہمیں دہشت گرد کہنے سے باز نہیں آتا۔ لہذا ہمیں اپنے اس رویے پر بھی نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔

خود کو بیچ آئے جو اغیار کے ہاتھوں سارے
ہم سے وہ بھی یہاں کردار کی ضد کرتے ہیں

عیب لگ جائے کوئی ہاتھ ہمارا انکے
سر قلم کرنے کو تلوار لئے پھرتے ہیں

اللہ تعالی اپنے پیارے محبوب حضرت محمد مصطفی ﷺ خاتم النبیین رحمت اللعالمین راحت اللعاشقین کے صدقے صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے اور اپنے پیارے حبیب ﷺ کے بتائے ہوئے احکامات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

About Hamza Bhatti

Ameer Hamza Umer Bhatti is from Sargodha. He is a student and studies BS Department of English literature in University of Lahore (SGD Campus). He loves to write on social and political issues. He wants to become a journalist.

Check Also

Gaun Ki Eid

By Aaghar Nadeem Sahar