Bache, Bachpan Aur Waldain Ki Khwahishat
بچے، بچپن اور والدین کی خواہشات
میں academics میں نسبتاً تیز تھا۔ مطلب میرا ٹریک ریکارڈ ہمیشہ سے پہلی چند پوزیشنز میں رہا۔ میں اپنے والدین کا فخر تھا۔ ان کا سر اونچا کرنے کی کئی وجوہات میں سے ایک وجہ ہوا کرتا تھا۔
پڑھائی میں تیز ہونا اپنی جگہ لیکن میں ہاکی کھیلنا چاہتا تھا۔ میں پتنگ اڑانا چاہتا تھا۔ میں کرکٹ کھیلنا چاہتا تھا۔ اگر یہ سب کرنے کی کھلی اجازت ہوتی تو ممکن ہے میں academics میں پوزیشن نہ لے پاتا۔ بات خود پسندی کی ہرگز نہیں۔ بس اپنا تجربہ اور ایک مشورہ گوش گزار کرنا مقصود ہے۔ مجھے یاد ہے اماں یا ابا میں سے کسی نے کہا کہ تم genius ہو۔ جواب میں کہا جو مجھے جینیس سمجھتا ہے وہ احمق ہے۔ میں نہیں ہوں جینیس۔ میرے پاس تب الفاظ نہیں تھے جو آج ہیں۔ آج میں سمجھتا ہوں میں اندھوں میں کانا راجا تھا۔ جینیس اور ہوتے ہیں۔
مجھے البتہ پتنگ اڑانی تھی۔ ہاکی کھیلنی تھی۔ کرکٹ کھیلنی تھی۔ اور یہ سب میں اس وجہ سے نہ کر پایا کیونکہ مجھے اپنا مستقبل اور والدین کا سر اونچا رکھنا تھا۔ مجھے اس سے شکایت نہیں۔ والدین کبھی اپنی اولاد کا برا نہیں سوچتے۔ میرے والدین نے بھی کبھی میرا برا نہیں سوچا اس بات پر میرا ایمان ہے۔ ہاں لیکن جو اچھا سوچا اس سے اختلاف ہو سکتا ہے۔ ہوتا ہے۔ ہوا ہے۔
پر جو ہو چکا وہ ماضی ہے۔
آج ابھی اس وقت میں اپنی اولاد کا ابا ہوں۔ پھر زمان و مکاں دونوں ہی بدل چکے ہیں۔ نہ ہم پشاور میں ہیں نہ ہم نوے کی دہائی میں ہیں۔ میرے بچے میلبرن میں پڑھتے ہیں جہاں کی ہر دوسری گاڑی کی نمبر پلیٹ پر Victoria - The Education State جلی حروف میں کندہ ہوتا ہے۔ یہ ۲۰۲۲ ہے اور اس ملک میں سیم سیکس میرج جائز ہے اور جانوروں پر تشدد غیر قانونی۔ سو وقت اور جگہ بدل چکی ہے۔
میں سمجھتا ہوں مجھے اپنا شملہ اونچا کرنے کے لیے اپنی اولاد پر دباؤ نہیں ڈالنا چاہئیے۔ مجھے لگتا ہے میرے دو بچے منطق میں اور ایک بچہ جذبات میں بہت پیارے ہیں۔ میری خواہش ہے میرے بچوں میں سے کوئی ایک کرکٹ کھیلے، آسٹریلیا گھومے، دنیا پھرے۔ میں چاہتا ہوں میری بیٹی فوٹی کھیلے۔ میں چاہتا ہوں میرے بچے اپنا ہر فیصلہ خود کریں۔
لیکن میری ہر خواہش پوری نہیں ہوتی یہ بات میں بہت پہلے سمجھ چکا تھا۔ اس سے زیادہ اہم بات یہ تھی کہ میرے بچے میری خواہشات پوری کرنے کا نام نہیں۔ میری آسودگی کی قیمت میری اولاد نہیں۔ وہ جیتے جاگتے آزاد وجود ہیں جن کا اپنا دل ہے جن کا اپنا دماغ ہے جن کا اپنا موڈ ہے جن کی اپنی طبیعت ہے جن کی اپنی فکر ہے جن کا اپنا تشخص ہے۔ ارحم ٹینس کا کہتا ہے مجھے خوشی ہوتی ہے۔ اپنے بھاری بھرکم وجود کے ساتھ میں اس کے ساتھ نکل پڑتا ہوں۔ عشمینہ فٹ بال کھیلنا چاہتی ہے مجھے خوشی ہوتی ہے۔
اچھا ایک اور بات یاد آئی۔ عشمینہ کبھی گھر سے باہر نہیں رہی۔ خالہ کی طرف رہی ہے تاہم وہ دو گلی چھوڑ کر اور وہ بھی شاید دو تین بار۔ سکول کی طرف سے عشمینہ کا چار روزہ کیمپ تھا۔ عشمینہ نے کہا میں نے نہیں جانا۔ میں نے ریکویسٹ کی کہ چلی جاؤ انجوائے کرو گی۔ پہلے مان گئی۔ پھر پانچ چھ دن بعد پلٹ گئی۔ میں نے کچھ نہیں کہا۔ ٹھیک ہے۔ بیٹی کا فیصلہ ہے سر آنکھوں پر۔ جس دن فارم بھرنے کا آخری دن تھا خود سے کہنے لگی کہ میں نے جانا ہے۔ بھئی وہ جائے گی اس کا کانفیڈینس بڑھے گا۔ مجھے اچھا لگے گا۔ نہیں جانا تو ٹھیک ہے۔ سمجھ جائے گی ایک دن۔ میں کیوں ضد کروں؟
میں جس وقت شدید ترین پڑھاکو ہوا کرتا تھا میرے ساتھ کے فیلچی آج بھوکے تو نہیں مر رہے۔ کئی کا اپنا کاروبار ہے۔ خوشحال ہیں۔ فیملی کے ساتھ مزے سے زندگی گزار رہے ہیں۔ میں اپنی اولاد کے لیے ان کے ساتھ ان کا آج ان کے آنے والے کل کی خاطر کیوں تباہ کروں؟ مجھے کرکٹ ہاکی کھیلنی تھی مگر مجھے پڑھنا پڑتا تھا۔ میں جانتا ہوں اس کی اذیت۔ میں کیوں اپنی اولاد کو اذیت دوں وہ بھی اپنا شملہ اونچا رکھنے کو؟
میں چاہتا ہوں میرے بچے ایک بچپن گزاریں۔ میں چاہتا ہوں میرے بچے اپنے بچپن کو کسی ان دیکھے مستقبل کے چکر میں قربان نہ کریں۔ میں چاہتا ہوں میرے بچے اگر اچھے گریڈ لینا چاہیں تو بغیر کسی بناوٹ کے لیں۔ میں سمجھتا ہوں گریڈنگ سسٹم میرے بچوں کا بچپن نہ کھا جائے۔
میں چاہتا ہوں جو دقّت میں نے جھیلی میرے اور آپ کے بچوں سمیت باقی کا معاشرہ وہ مصائب نہ دیکھے۔
شاید یہ ہمارا فرض ہے۔ شاید یہ ہماری اولاد کا حق ہے۔