Aamant O Bil Imran
آمنت باالعمران
نوجوان نسل کی سیاست سے آگہی اتنی ہی گہری ہے جتنی پاکستان میں جمہوریت کی جڑیں۔ جس طرح آمر ہر چند سال بعد آئین و جمہوریت کے ساتھ زنا بالجبر کرتے رہے اسی طرح سیاسی عدم استحکام اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے معاشی خلاء کی وجہ سے ہمارے نوجوان سیاست سے نابلد اور عموماً دلبرداشتہ ہیں۔ ایسے حالات میں اگر کوئی سیاسی طور پہ امام مہدی ہونے کا دعوٰی کرے تو اس پہ ایمان لانا کوئی اچنبھے کی بات ہر گز نہیں رہ جاتی۔ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ ہماری نئی نسل میں 90 فیصد ایوان بالا کے انتخاب کا عمل ہی نہیں جانتی، بلکہ شاید ایوان بالا و ایوان زیریں کے درمیان فرق بھی نہیں جانتی۔ ایسے حالات میں آفشور کمپنیوں کے مفروضے کو ہوّا بنا کے چائے کی پیالی میں طوفان برپا کرنا بھی ایک عام سی بات ٹھہرتی ہے۔
پانامہ لیکس کے بارے میں زیادہ تفصیلات میں جا کر میں اپنے اور آپ کے وقت کے ضیاع سے گریز کروں گا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ وزیراعظم پاکستان سے ان کی اولاد اور جائداد سے متعلق سوالات پوچھے جا رہے ہیں اور یہ امید کی جا رہی ہے کہ وہ اس بارے میں موجود ابہام کے مدنظر جنرل الیکشن میں پڑنے والے ووٹ کی تذلیل کریں اور اپنا عہدہ چھوڑ دیں۔ جیسا کہ ہم نے بین السطور عرض فرمایا کہ ملکی نوجوان سیاسی طور پہ نابالغ ہیں لہذا کسی بھی سیاسی امام مہدی پہ ایمان لانے کو تیار بیٹھے ہیں، اس کی واضح مثال پانامہ لیکس کا معاملہ ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے کسی بھی معاملے کو مسئلہ بنانے سے قبل ضروری ہے کہ اپوزیشن خود اس معاملے میں صاف ہو۔ اگر اپنا گریبان مشکوک ہو گا تو پارلیمنٹ کے اندر سے شروع ہونے والا ہر حربہ ناکام جانا برحق ہے۔ شروعات میاں صاحب کے خاندان پہ الزامات سے ہوئی۔ خان صاحب کا ارشاد آیا کہ آفشور کمپنیاں وہی بناتا ہے جو یا تو کالا دھن چھپائے یا ٹیکس سے بھاگے۔ یوں خان صاحب نے دونوں جانب سے شریف خاندان کی دھلائی میں کوئی کثر نہ چھوڑی۔ کچھ ہی عرصے بعد پانامہ لیکس کی فہرست میں چند شہرت یافتہ جیالے بھی شامل ہو گئے اور یوں پیپلز پارٹی کے سخت موقف میں نرمی آنا شروع ہوئی۔ ابھی جیالے اپنی صفائیاں دے ہی رہے تھے کہ سیاسی امام مہدی حضرت عمران علیہ السلام کی اے ٹی ایم مشینوں کا نام بھی سامنے آگیا۔ خان صاحب جھلاہٹ کے عالم میں وہ شہرہ آفاق بونگیاں مارتے ہیں جن کا دفاع کرنے پہ مجھے مصطفی کمال یاد آجائے ہیں۔ خان صاحب پہلے ترین و علیم کی آفشور کمپنیوں سے انکار کرتے رہے، پھر آفشور کمپنیوں کی حرمت سے حلت کی جانب سفر کیا اور بالآخر ہمیشہ کی طرح اپنی سیاست کا محور نواز شریف کی ذات کو لے کر رونا پیٹنا شروع ہو گئے۔ یوں اپنا کیس کمزور کرتے کرتے ایک وقت ایسا بھی آیا جب خان صاحب کرسی کی محبت میں ڈوب کر ایک اعلی نسلی بونگی مار چلے۔ میڈیا میں انکشاف ہوا کے عین ان دنوں جب خان صاحب نواز شریف کی حکومت سے ازراہ بھیک ایک پلاٹ مانگ رہے تھے، خان صاحب لندن کے فلیٹ کو اپنی آفشور کمپنی کے نام کر کے ٹیکس سے بھاگنے کی کوششِ عین حلال فرما رہے تھے۔ استفسار پر موصوف فرماتے ہیں کہ یہ حرکت انہوں نے اپنے اکاؤنٹنٹ کے کہنے پہ ٹیکس سے بچنے کی خاطر کی۔ گویا آپ کریں تو حلال ڈانس اور کوئی اور کرے تو حرام مجرا؟ اب صورتحال کچھ یہ ہے کہ نواز شریف کی ذات پہ نہیں بلکہ ان کی اولاد پہ آفشور کمپنیوں کے الزامات ہیں جبکہ دوسری جانب خان صاحب کی اپنی ذات اور ان کے دو انتہائی معزز اور اہم مصاحبین اسی الزام کے ملزمان ہیں۔
یہاں دو باتیں روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہیں۔ پہلی بات یہ کہ اپوزیشن کو شروع سے علم تھا کہ اس حمام میں ننگ پنے کا مظاہرہ ان کی اپنی جانب سے بھی بھرپور ہو گا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو تحریک عدم اعتماد کی جانب ہاتھوں میں ہاتھ لیے چلنا کوئی مشکل تو نہ تھا؟ وزیراعظم کی ایوان سے بے دخلی کا راستہ ایوان کے اندر سے ہی نکلتا تھا لیکن آفشور کمپنیوں کے مالک خود اس جے خلاف کیسے جا سکتے ہیں؟ دوسری بات جو ہمیشہ کی طرح ثابت ہوتی رہی وہ یہ نواز شریف کی سیاست کو کچا سمجھنے والے سیاسی ہمدردی کے قابل ہیں۔ شریف خاندان از خود خاموشی اختیار کیے رکھا تاوقتیکہ حالات سازگار نہ ہو جائیں۔ میاں صاحب نے واقعی بہت کچھ سیکھا دو حکومتوں سے۔
لیکن یہ باتیں ہمارے سیاسی امام مہدی اور ان کے نابالغ نابینا مقلدین نہیں سمجھ پائیں گے۔ ان تمام بھائیوں اور بہنوں کے لیے آمنت باالعمران ہی دلی سکون کا باعث ہے لہذا اسی کا ورد جاری رکھنے کا مشورہ ہے۔