Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Kiran Arzoo Nadeem
  4. Nazriya e Zaroorat

Nazriya e Zaroorat

نظریہ ضرورت

شیخ رشید کی لال حویلی اس وقت بحث و تکرار کا باعث بنی ہوئی ہے۔ اس حویلی پر قبضہ نا جائز تھا، لیکن نا جائز تو اُس وقت بھی تھا جب وہ اس حویلی میں ڈنکے کی چوٹ پر سیاست کرتے تھے، غلط اور صحیح کے پیمانے شاید ہمارے اپنے بنائے گئے ہیں، لیکن خدا کا اُصول تو اپنی جگہ پر اٹل ہے کہ ظالم کی کھیتی پنپ نہیں سکتی! ظلم کا مطلب ہے کہ جس جگہ جس چیز کو ہونا چاہیے وہ وہاں نہ ہو، ظلم اپنا نتیجہ مرتب کر کے رہتا ہے۔ جن مقامات کو خدا نے امن کا مقام قرار دیا تھا جن کی حفاظت میں آکر کوئی بھی اللہ کی حفاظت میں آ جاتا ہے۔

مسلمان کتنا بھی سفاک کیوں نہ ہو، مکہ اور مدینہ کا تقدس بہر حال اُس کے پیشِ نظر رہتا ہے۔ شیخ رشید نے جس طرح ان مقدس مقامات پر تماشا کروایا اور جو لوگ اس منصوبے میں شامل ہوئے اُن کو سعودی حکومت کی طرف سے دس دس سال کی قید سنائی گئی، اور اُن افراد کی رہائی بھی اُسی شخص نے کروائی جن پر چور چور کے نعرے لگوائے گئے۔ اس حویلی کے کچھ حصوں پر قبضہ واپس لے لیا گیا ہے۔ میں اس وقت کسی کی مخالفت یا حمایت نہیں کر رہی، لیکن شیخ صاحب جن افراد کو اکھٹا کرکے یہ نعرے لگوا رہے ہیں کہ یہ غنڈہ گردی اب نہیں چلے گئی! شیخ صاحب کا امن کے مقام پر غنڈہ گردی کر وانا کیا تھا؟

اعظم سواتی کا معاملہ ہو جو کمزور کسانوں کو صرف اس جرم کی پاداش میں اندر کروا دیتا ہے کہ ان غریبوں کی بھینس ان کی زمینوں میں چر رہی تھی یا شاید پانی پی رہی تھی!

خدا نے جب خدا کی زمین اور خدا کی اُونٹنی کی مثال دی تھی تو اس کا مطلب یہی تھا کہ اس زمین اور اس کے وسائل پر بلا تفریق رنگ و نسل سب کا حق ہے لیکن رب کی واضح ہدایت کے باوجود اتنا بڑا ظلم اُس ملک میں ہوا جو اللہ کے نام پر قائم کیا گیا تھا۔

فواد چودھری ہوں یا شہباز گل جو دوسروں پر رندہ پھیرنے کی بات کرتے تھے، جب وقت کی گردش نے پلٹا کھایا تو ان کی آوازیں دنیا نے سنیں!

بات پھر وہی ہے کہ حق بات یہ ہے کہ غلط اور ٹھیک کا معیار ایک ہی ہوتا ہے، اس کے پیمانے وقت اور حالات کے لحاظ سے بدلہ نہیں کرتے، ناجائز دستاویزات ناجائز ہی رہتیں ہیں! چاہے دور کسی کا بھی ہو! توشہ خانہ تحائف کوئی بھی لے، بغیر اُصول اور ضابطے کے وہ غلط ہی ہوتا ہے! اُس کو "میرا تحفہ، میری مرضی" کہہ کر ٹھیک قرار نہیں دیا جا سکتا! ہم بہر حال مسلمان ہیں! اور ہمارے سامنے ہماری کتاب بھی مو جود ہے اور تاریخ بھی جو ہمیں گاہے بگاہے یہ بتاتی رہتی ہے کہ صداقت کیا ہے؟

ہماری سیاست نظریہ ضرورت کے تحت تشکیل پاتی ہے جب کہ ہمیں پاکستان بنا کر دینے والے مردِ مومن قائدِ اعظم کی زندگی میں نظریہ ضرورت تھا ہی نہیں! اپنے سیاستدانوں کو پھر وہی واقعہ بتاتی چلوں جو میں متعدد بار نقل کر چکی ہوں لیکن مجھے شاید اس لئے نہیں بھولتا کہ میں چاہتی ہوں کہ جو مثال ہمیں قائدِ اعظم دے گئے شاید کوئی ایک دل بھی ایسا پیدا ہو جائے جو ہماری سیاست کو اُصولوں پر لے آئے!

یہ پا کستان بننے سے پہلے کی بات ہے جب کلکتہ چیمبر میں ایک سیٹ خالی تھی، آج ہم نہیں سمجھ سکتے کیونکہ ہم سب مسلمان ہیں اور ساری سیٹیں ہماری ہیں! ہندوّں کے مقابلے میں کلکتہ چیمپر میں ایک سیٹ خالی تھی جو اس بات کا ٹیسٹ تھا کہ مسلمانوں کی strength کتنی ہے! اصفہانی وہاں سیٹ کے لئے کھڑے ہوئے، بلا مقابلہ کھڑے ہوئے، انتخاب سے دو دن پہلے ایک اور شخص بھی کھڑا ہوگیا، انھیں فکر ہوئی کہ اب ووٹیں بٹ جائیں گئیں۔

عبد الرحمٰن صدیقی اُن کے ساتھی تھے، وہ ایک شام آئے، اصفہانی نے خود اس واقعہ کو اپنی کتاب میں لکھا ہے۔ کچھ آہستہ آہستہ آپس میں باتیں کر رہے تھے قائدِ اعظم بھی پاس ہی بیٹھے تھے کہا کہ قریب آکر مجھ سے بھی بات کرو، اس پر قائدِ اعظم کو بتایا گیا کہ جو فریقِ مخالف اُمیدوار کھڑا ہوا تھا، اُس سے بات ہوگئی ہے، اُس نے کہا ہے کہ میری ضمانت کا روپیہ ادا کر دیں تو میں بیٹھ جاتا ہوں، اس طرح اصفہانی بلا مقابلہ منتخب ہو جائیں گئے۔

اصفہانی لکھتے ہیں کہ قائدِ اعظم کا رنگ سرخ ہوگیا، اور کہا کہ فریقِ مخالف کو اس کی ضمانت کا پیسہ دے کر بیٹھا دینا بلا واسطہ رشوت نہیں تو اور کیا ہے؟ ایسا کبھی نہیں ہوگا! ہم مقابلہ کریں گئے، نا کام رہ جائیں گئے لکین رشوت دے کر نہیں جیتیں گئے! ایک ایک سیٹ نہیں بلکے ایک ایک ووٹ قیمتی تھا اُس زمانے میں! عبد الرحمٰن کو بھیج کر معاملہ منسوخ کروا دیا۔ اور اس کے بعد جو اُصول بیان کیا وہ سنہری خروف سے لکھنے کے قابل ہے!

"میرے عزیز! یاد رکھو! پبلک لائف میں دیانت پرائیویٹ لائف میں دیانت سے زیادہ اہم ہوتی ہے کیونکہ پرائیویٹ لائف کی بد دیانتی سے کسی ایک شخص کو نقصان ہوتا جبکہ پبلک لائف میں بد دیانتی سے ہزاروں لوگ گمراہ ہو جاتے ہیں جن کا آپ پر اعتبار ہوتا ہے۔ یاد رکھو! سیا ست میں کبھی ایسا نہ کرنا کہ اُصولوں کو چھوڑ کر کوئی چیز خرید لو!

یہاں پر بتایا جاتا ہے کہ خان صاحب نے اس زمانے میں جب پاکستان نے ورلڈ کپ جیتا تھا تو اپنے لڑکوں سے کہا تھا کہ وہ پاکستان پر پیسے لگائیں کیونکہ جوا شاید دوسری ٹیم پر لگ چکا تھا! خان صاحب کیسے نوجوان تیار کر رہے تھے اور اب تک ان کے فرمودات ایسے ہی ہیں!

جب مردِ مومن کا ہاتھ، اللہ کے ہاتھ سے ملتا ہے تو کیا ہوتا ہے! اس مردِ مومن نے ہمیں چند سالوں میں پاکستان لے کر دے دیا! اُصولوں میں بڑی طاقت ہوتی ہیں انگریز کو معلوم تھا کہ اُصولوں پر جم کر کھڑا ہونے والا جناح نا قابلِ تسخیر ہے!

اب ہم اپنے ملک کے ساتھ کیا کر رہے ہیں؟

یہ ملک "نظریہ ضرورت" کے تحت چل رہا ہے! اور سب سیاستدان خواہ کسی بھی پارٹی سے تعلق رکھتے ہوں"نظریہ ضرورت" کو خدا بنائے بیٹھے ہیں!

Check Also

Aaj Soop Nahi Peena?

By Syed Mehdi Bukhari