Jab Tasbeeh Hath Se Choot Jaegi
جب تسبیح ہاتھ سے چھوٹ جائے گئی
آج کل اربوں روپیوں کی کرپشن کا ذکر اس طرح آتا ہے۔ جیسے اربوں نہیں ہزاروں روپے کی بات ہو، وہ ملک جہاں کے رہنے والے چھوٹی چھوٹی بنیادی ضروریات کے لئے ترس رہے ہوتے ہیں۔ وہاں ایک شخص اربوں روپے کا مالک بنا بیٹھا ہے۔ حکومت میں آنے کی دیر ہوتی ہے، اور اثاثے اربوں روپے تک پہنچ جاتے ہیں، یہ لوگ اربوں روپے کما کر کیا سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ فائدے میں ہیں؟
بظاہر دنیا کی عیش بھری زندگی فائدہ ہی لگتی ہے۔ لیکن جن کی نظریں دائمی فائدہ پر ہوں تو وہ کچھ اور ہی ہوتا ہے۔ میں اپنے ابو سے ذکر کر رہی تھی کہ آپ نے اتنے سال ارامکو میں جاب کر کے اتنا کمایا اور سب کچھ گنوا دیا۔ صرف اس لئے کہ وہ بینکوں کا سود کا پیسہ نہیں کھانا چاہتے تھے۔ حق، حلال کی کمائی کے ذریعے ڈھونڈتے رہے۔ تو میں اکثر ان سے بحث کرتی ہوں کہ آپ نے کیا کھویا اور کیا پایا؟
آج خالی ہاتھ ہو کر بیٹھے ہو، آپ نے صرف نقصان ہی کیا، لیکن آج ابو کے جواب نے مجھے ہمیشہ کے لئے خاموش کروا دیا۔ ابو مجھے بتانے لگے کہ قرآن شریف میں اللہ نے نقصان کو دو شقوں میں تقسیم کیا ہے، ایک انسانی ذات (نفس یا خودی) کا نفع اور نقصان اور دوسرا اس کی طبعی زندگی کا نفع اور نقصان، حقیقی نفع اور نقصان کیا ہے؟ حقیقی نفع اور نقصان کا تعلق انسانی ذات سے ہے۔
کیونکہ انسانی ذات ہی اصل حیات (زندگی) ہے۔ اور انسانی ذات کو انسان خود ہی نفع یا نقصان پہنچا سکتا ہے، کوئی دوسرا نہ اُس کا کچھ نقصان کر سکتا ہے، نہ نفع پہنچا سکتا ہے۔ ابو مجھے کہتے ہیں کہ مجھے طبعی نقصان تو ہوا جو وقتی ہے۔ میں تکلیف میں مبتلا ہوا، میری فیملی تکلیف میں مبتلا رہی، قرآن نے مردِ مومن کو تاکید کی ہے کہ وہ ایسی زندگی گزاریں، جس میں نہ دھوکا دینے کا نہ دھوکا کھانے کا احتمال ہو۔
لیکن جب انسان سے ایسی غلطی سرزد ہو جائے، تو پھر غلطیوں کا خمیازہ تو بھگتنا پڑتا ہے۔ لیکن میں خدا کا شکر گزار ہوں کہ میں نے اپنی ذات کو نقصان نہیں پہنچایا، جو حقیقی نقصان ہوتا، جس کا ازالہ بھی مشکل ہو جاتا۔ پھر میری نظر دوبارہ اربوں اور کروڑوں روپے کے مفاد پر جاتی ہے۔ جو میڈیا میں ہر روز آتا ہے، آج کل مانیکا خاندان، کبھی بزدار اور کبھی توشہ خانہ کے تخائف زیرِ بحث بنے ہوتے ہیں۔ پاکستان کو کھانے والا کوئی ہو؟ کس بھی پارٹی سے تعلق رکھتا ہو؟ چاہے مسلم لیگ ہو، چاہے پیپلز پارٹی ہو؟
چاہے پی ٹی آئی ہو، چاہے اسٹپلشمنٹ، چاہے ججیز، سب اربوں روپے کمانے والے، وہ کبھی نہیں سوچیں گے کہ وہ تو نقصان کا سودا کر رہے ہیں۔ کیا خان صاحب سوچ رہے ہیں؟ جب انہوں نے شوکت خانم ہسپتال بنا کر نیک کام کا آغاز کیا تھا، پھر وہ خدا سے مانگتے مانگتے آستانوں تک ننگے پاؤں جا پہنچے اور تسبیخ ہاتھ میں پکڑ لی اور اپنے جاننے والوں کو اربوں روپے کے فائدے پہنچانے، اور جب یہ آستانے ان کو نہ بچا پائیں گئے، تو ذات کا نقصان الگ ہو رہا ہے، اور تسبیخ بھی ہاتھ سے چھوٹ جائے گئی۔